بھیڑ ہے بر سر بازار کہیں اور چلیں آ مرے دل مرے غمخوار کہیں اور چلیں کوئی کھڑکی نہیں کھلتی کسی باغیچے میں سانس لینا بھی ہے دشوار کہیں اور چلیں تو بھی مغموم ہے میں بھی ہوں بہت افسردہ دونوں اس دکھ سے ہیں دوچار کہیں اور چلیں ڈھونڈتے ہیں کوئی سر سبز کشادہ سی فضا وقت کی دھُند کے اس پار کہیں اور چلیں یہ جو پھولوں سے بھرا شہر ہوا کرتا تھا اس کے منظر ہیں دل آزار کہیں اور چلیں ایسے ہنگامہ محشر میں تو دم گھٹتا ہے باتیں کچھ کرنی ہیں اس بار کہیں اور چلیں 🔥اعتبار ساجد
کچھ لوگ بہار کی خوشبو جیسے ہوتے ہیں ۔ بھلے کتنی ہی مسافت پہ کیوں نہ ہوں اپنی گفتار کی مہک سے ان فضاؤں کو بھی معطر رکھتے ہیں جو کبھی ان کی رہگزر بھی نہ رہی ہوں . 😊
وہ بھی سمجھے گا نہیں قلبِ عزادار کا دُکھ اُسکو معلوم کہاں ہجر کے آزار کا دُکھ کون جانے غمِ دوراں میں تڑپنا میرا کون جانے بھلا عُسرت میں گرفتار کا دُکھ میں کہ دو طرفہ اذّیت میں گھُلا ہوں عاصم دل گھر بار کا دُکھ ہے تو وہیں یار کا دکھ 🍁🍁🍂
غم دوراں، غم ہجراں پہ غم یار کا دکھ ہے مسیحائی سے آگے ترے بیمار کا دکھ تیرا کیا دوش کہ تو نے تو سمیٹی الفت کیسے سمجھے تو محبت کے طلبگار کا دکھ مات کھا جاوں یہ ممکن تو نہیں تھا لیکن ہے میرے مد مقابل مرے معیار کا دکھ خواب نگری کے مسافر تجھے تعبیر ملی عشق والوں کی سزا دیدہء بیدار کا دکھ زخم اپنوں نے لگائے تھے کئی بار،سہے کھا گیا مجھ کو مرے یار ترے وار کا دکھ
وقت سب کو ایک طرز پر نہیں برتتا ـ کسی کو تو وہ ہتھیلی پر بٹھا کر سفر کی منازل طے کرا دیتا ہے اور کچھ کو وہ اپنے قدموں تلے روندتا ہوا زندگی کی شاہراہ پر گھسیٹتا ہوا لے جاتا ہے ـ