ہم سلطنت سے اپنی بن کے شاہ سوار نکلے ان کی گلی میں جب تارے ہزار نکلے بڑھتی گئی روشنی جب پتہ چلا انہیں سو رہا ہے زمانہ اور ہم دیدار کو ہے نکلے دل تصدیق کر چکا ہے کہ وہ بندہ کمال ہے اب ڈر لگ رہا ہے کہیں بے وفا نہ نکلے عاقِب تمہیں بھی انہوں نے ہنس کر بولا لیا اخلاق میں تو سب سے وہ بے مثال نکلے