جہاں دیکھو عشق کے بیمار بیٹھے ہیں ہزاروں مر کر بھی لاکھوں تیار بیٹھے ہیں برباد کرکے اپنی تعلیم لڑکیوں کے پیچھے پھر کہتے ہیں مولوی صاحب دعا کرو ہم بے روزگار بیٹھے ہیں
ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں ضروری بات کہنی ہو کوئی وعدہ نبھانا ہو اسے آواز دینی ہو اسے واپس بلانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں مدد کرنی ہو اس کی یار کی ڈھارس بندھانا ہو بہت دیرینہ رستوں پر کسی سے ملنے جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں بدلتے موسموں کی سیر میں دل کو لگانا ہو کسی کو یاد رکھنا ہو کسی کو بھول جانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں کسی کو موت سے پہلے کسی غم سے بچانا ہو حقیقت اور تھی کچھ اس کو جا کے یہ بتانا ہو ہمیشہ دیر کر دیتا ہوں میں ہر کام کرنے میں۔۔۔۔۔