یہ کون مجھ کو بلا رہا ھے عشق کے قصے سنا رہا ھے وفا کی باتیں سنا سنا کر یہ کون مجھ کو رولا رہا ھے یہ کون خوشیوں کے راگ سر پہ غموں کے گیت گا رہا ھے یہ کون جھوٹی انا پرستی کے وہم میں خود کو گنوا رہا ھے یہ کون خود پرستی کا درس دے کر خدا خردی کو بنا رہا ھے انوکھا لاڈلہ ابن آدم خود ہی خود کو مٹا رہا ھے
نہ علاج اس کا نہ کوٸی ، دواٸی کرونا ہے یارو وہ مرضِ ، وباٸی ستمِ جہاں دیکھ کر ہوتا ہے گماں یہ ناراضگی خدا کی زمیں پر اُتر ، أٸی کہیں عصمت دری تھی کہیں لاشیں پڑی تھیں چشمِ غیور پھر بھی نہ کوٸی ، شرماٸی جُنٗبشِ اَنگُشت سے پیوستہ عالمِ بے حیاٸی اتنی أسان تو کبھی نہ تھی ، براٸی دِلوں میں کَجی تو پہلے ہی تھی پِنہاں اب تو ہاتھ ملانے سے بھی گۓ ، بھاٸی کیا حق ارضِ خُدا کو میلا کریں ہم کیسے ممکن تھا جوش میں نہ أتی ، خداٸی ”اخلاق“ کرونا سے بچنے کی یہی سبیل ہے اب سب مل کر اپناٸیں ہم اس کے دَر کی ، گداٸی