کسی کا عشق، کسی کا خیال تھے ہم بھی گئے دنوں میں بہت با کمال تھے ہم بھی . ہماری کھوج میں رہتی تھیں تِتلیاں اکثر کہ اپنے شہر کا حسن و جمال تھے ہم بھی . زمیں کی گود میں سر رکھ کر سو گئے آخر تمہارے عشق میں کتنے نِڈھال تھے ہم بھی . ہم عکس عکس بکھرتے رہے اسی دُھن میں کہ زندگی میں کبھی لازوال تھے ہم بھی
وہ مجھ سے بڑھ کے ضبط کا عادی تھا جی گیا ورنہ ہر ایک سانس قیامت اسے بھی تھی تنہا ہوا سفر میں تو مجھ پہ کھلا یہ بھید سائے سے پیار دھوپ سے نفرت اسے بھی تھی محسنؔ میں اس سے کہہ نہ سکا یوں بھی حال دل درپیش ایک تازہ مصیبت اسے بھی تھی
کوئی مثال نہیں ہے تیری مثال کے بعد میں بے خیال ہوا ہوں تیرے خیال کے بعد بس اک ملال پہ تو زندگی تمام نہ کر بڑے ملال ملیں گے میرے ملال کے بعد ہر ایک زخم کو اشکوں سے دھو کے چوم لیا میں ایسے ٹھیک ہوا اس کی دیکھ بھال کے بعد دعا سلام سے آگے میں بڑھ نہیں پاتا اسے بھی سوچنا پڑتا ہے حال چال کے بعد