کچھ وقت ہم سے بھی بات کر لیا کرو موت آ جاۓ ہم کو پھر یاد کرو گی ہماری فریادے
نظر اٹھا کہ کوئی ہم کو دیکھتا بھی نہیں
اگرچہ بزم میں سب روح شناس بیٹھے ہیں
کوئی اچھی سی شاعری میرے لیے
یار تیرا حق نہیں بنتا تھا درد دینے کا
تجھے تو زندگی کے سارے دکھ بتاۓ تھے
کٹ ہی گی جدائی بھی کب یہ ہوا کہ مر گے
تیرے بھی دن گزر گے میرے بھی دن گزر گے
وقت ہی جدائی کا اتنا طویل ہوگیا
دل میں تیرے وصال کے جتنے بھی زخم تھے بھر گے
وقت سے پوچھ رہا ہے کوئی
زخم کیا واقعی بھر جاتے ہیں
وہ اتنا خوش ہے کہ ہمت ہی نہیں ہوتی
یہ پوچھنے کی کہ میری یاد آتی بھی ہے کہ نہیں
اور پھر چاند نے بھی مجھ سے یہ سوال پوچھا
کہاں گیا وہ شخص جس کی مجھ سے برابری کرتا تھا
یا تو ساحل سے تمہیں کنارہ کر جانا تھا
تشنہ لب تھے تو سمندر میں اتر جانا تھا
تمنا تھی کہ کوئی ٹوٹ کر چاہے ہمیں
ہم خود ہی ٹوٹ کے کسی کو چاہتے چاہتے
کتنے معصوم ہوتے ہیں یہ آنکھوں کے آنسو بھی
یہ نکلتے بھی ان کے لیے ہیں جنہیں پروا تک نہیں ہوتی
کوشش کریں کہ نسلی لوگوں سے تعلق رکھیں
یہ ناراض بھی ہو تو
عزت اور کردار پہ بات نہیں کرتے
بدلہ جو رنگ آپ نے حیرت ہوئی مجھے
گِرگِٹ کو مات دے گی فطرت جناب کی
ریت پر لکھے تھے جو کبھی نام وفا کے
موجوں نے وہ مٹا دیے کیا رہے گی تھی کمی
اتنی سی بات پہ چھوڑ تھوڑی دو گا اُسے
دل ہی تو دُکھاتی ہے میرا بس
حق پر کھڑا ہونے کے لیے کلیجہ چاہیے
تلوت چاٹنے کے لیے تو زبان ہی کافی ہے
خرید تو لینا تھا ہم نے بھی محبوب اپنا
دل تو بڑا نواب تھا پر مقدر غریب نکلا
نہ جانے کونسی شکایتوں کے ہم شکار ہوگے
جتنا دل صاف رکھا تھا اتنے ہی گنہگار ہوگے
یوں تو ہوۓ ہزار الودع زندگی میں
ہاں مگر
تیرا بچھڑ جانا مجھے اندر سے توڑ گیا
تصور میں چلے آو کہ ذرا دیدار ہی کر لے
تمنا تم سے ملنے کی تو پوری ہو نہیں سکتی
شب بخیر
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain