بامِ شہرت پہ تو پُوجا مجھے لوگوں نے، مگر
ساتھ آیا نہ کوئی کوچہءِ رسوائی تک
وہ تری آنکھ ہو یا سنگِ ملامت کی چُبھن
کون پہنچا ہے مرے زخم کی گہرائی تک
جب تک خلش درد تھی، اک گو نہ مزہ تھا
جب سے مجھے آرام ہے، آرام نہیں ہے
نقش پا اپنا ، کہیں راہ میں ہوتا ہی نہیں
سر سے کرتے ہیں مہم جب کوئی سر کرتے ہیں
رازِ الفت چھپا کے دیکھ لیا...
دل بہت کچھ جلا کے دیکھ لیا
― فیض احمد فیض
ہوئی ہے حضرتِ ناصح سے گفتگو جس شب...
وہ شب ضرور سرِ کوئے یار گزری ہے
― فیض احمد فیض
جو چل سکو تو چلو کہ راہِ وفا بہت مختصر ہوئی ہے...
مقام ہے اب کوئی نہ منزل، فرازِ دار و رسن سے پہلے
― فیض احمد فیض
نہ جانے کس لیے امّیدوار بیٹھا ہوں...
اک ایسی راہ پہ جو تیری رہگزر بھی نہیں
― فیض احمد فیض
فیض کیا جانئے یار کس آس پر، منتظر ہیں کہ لائے گا کوئی خبر...
میکشوں پر ہُوا محتسب مہرباں، دل فگاروں پہ قاتل کو پیار آگیا
― فیض احمد فیض
ادھر تقاضے ہیں مصلحت کے، ادھر تقاضائے دردِ دل ہے...
زباں سنبھالیں کہ دل سنبھالیں ، اسیر ذکر وطن سے پہلے
― فیض احمد فیض
اگر شرر ہے تو بھڑکے، جو پھول ہے تو کھِلے...
طرح طرح کی طلب، تیرے رنگِ لب سے ہے
― فیض احمد فیض
جسے صحراؤں میں ہولے سے چلے بادِ نسیم...
جسے بیمار کو بے وجہ قرار آ جائے
― فیض احمد فیض
وفائے وعدہ نہیں وعدۂ دگر بھی نہیں...
وہ مجھ سے روٹھے تو تھے، لیکن اس قدر بھی نہیں
― فیض احمد فیض
نہ سوالِ وصل، نہ عرضِ غم، نہ حکایتیں نہ شکایتیں...
ترے عہد میں دلِ زار کے سبھی اختیار چلے گئے
― فیض احمد فیض
وہ انتظار کی لذت سے آشنا ہی نہیں
کرے جو شکوہ شبِ ہجر کی طوالت کا
منتظر کب سے تَحَیُّرْ ہے تری تقریر کا
بات کر تُجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
احمد فرازؔ
اب مُلاقات میں وہ گرمئی جذبات کہاں
اب تو رکھنے وہ محبّت کا بھرم آتے ہیں
چمک رہا ہے خیمۂ روشن دور ستارے سا
دل کی کشتی تیر رہی ہے کھلے سمندر میں
تیرے بغیر مُجھے یہ جہاں نہیں درکار
تیرے بغیر نہیں کائنات وارے میں...
🌼
تیرے بغیر مُجھے یہ جہاں نہیں درکار
تیرے بغیر نہیں کائنات وارے میں...
🌼