اس نے دیکھا جو مجھے عالم حیرانی میں گر پڑا ہاتھ سے آئینہ پریشانی میں آ گئے ہو تو برابر ہی میں خیمہ کر لو میں تو رہتا ہوں اسی بے سر و سامانی میں اس قدر غور سے مت دیکھ بھنور کی جانب تو بھی چکرا کے نہ گر جائے کہیں پانی میں کبھی دیکھا ہی نہیں اس نے پریشاں مجھ کو میں کہ رہتا ہوں سدا اپنی نگہبانی میں وہ مرا دوست تھا دشمن تو نہیں تھا ماہی میں نے ہر بات بتا دی اسے نادانی میں
میں ٹوٹ کر اسے چاہوں یہ اختیار بھی ہو سمیٹ لے گا مجھے اس کا اعتبار بھی ہو نئی رتوں میں وہ کچھ اور بھی قریب آئے گئی رتوں کا سلگتا سا انتظار بھی ہو میں اس کے ساتھ کو ہر لمحہ معتبر جانوں وہ ہم سفر ہے تو مجھ سا ہی بے دیار بھی ہو مرے خلوص کا انداز یہ بھی سچا ہے رکھوں نہ ربط مگر دوستی شمار بھی ہو سفر پہ نکلوں تو رسم سفر بدل جائے کنارہ بڑھ کے کبھی خود ہی ہمکنار بھی ہو