آغوش ستم میں ہی چھپا لے کوئی آ کر
تنہا تو تڑپنے سے بچا لے کوئی آ کر
صحرا میں اگا ہوں کہ مری چھاؤں کوئی پائے
ہلتا ہوں کہ پتوں کی ہوا لے کوئی آ کر
بکتا تو نہیں ہوں نہ مرے دام بہت ہیں
رستے میں پڑا ہوں کہ اٹھا لے کوئی آ کر
کشتی ہوں مجھے کوئی کنارے سے تو کھولے
طوفاں کے ہی کر جائے حوالے کوئی آ کر
جب کھینچ لیا ہے مجھے میدان ستم میں
دل کھول کے حسرت بھی نکالے کوئی آ کر
دو چار خراشوں سے ہو تسکین جفا کیا
شیشہ ہوں تو پتھر پہ اچھالے کوئی آ کر
میرے کسی احسان کا بدلہ نہ چکائے
اپنی ہی وفاؤں کا صلہ لے کوئی آ کر
تِری نگاہ نے اِتنا تو کر دیا ہوتا
غمِ حیات میں کچھ رنگ بھر دیا ہوتا
اب آپ کِس لئے اِتنے ملُول ہوتے ہیں؟
دیا تھا رنج تو کچھ سوچ کر دیا ہوتا
کوئی سلُوک تو ہم کو بھی یاد رہ جاتا
کوئی فریب تو جی کھول کر دیا ہوتا
شبِ فراق اور اِتنی دراز! اے پیارے
دراز تھی تو سَحر خیز کر دیا ہوتا
خِرد سے کام نہ لیتے عدمؔ اگر ہم لوگ
غمِ حیات نے برباد کر دیا ہوتا