اب کیوں دیتا ہے وہ غیر کے حوالے مجھ کو عشق صادق ہے تو پھر آ کے سنبھالے مُجھ کو زندگی جس کے لیے گلزار ہُوا کرتی تھی اب دکھاتا ہے وہی پاٶں کے چھالے مُجھ کو اب وہی طرزِ محبت نہیں ممکن مُجھ سے اب پڑے ہیں خود اپنی جان کے لالے مُجھ کو تیرا ملنا ہی فقط جینے کی ہے صُورت ورنہ مار ڈالیں گے اب اس گھر کے جالے مُجھ کو منتظر ہوں کہ سُنوں تجھ سے کہانی اپنی لکھ کوئی غزل اور پھر آ کے سُنا لے مُجھ کو
خوابوں میں وہ تیرا آنا جانا پہلے بھی تھا آج بھی ہے تم سے بے وجہ رشتا رکھنا پہلے بھی تھا آج بھی ہے ظالم رنگ بدلتی دنیا میں سب کچھ بدل گیا لیکن میرے لبوں پر تیرا فسانہ پہلے بھی تھا آج بھی ہے