جو لمحے تیرے بغیر گزرے، وہ بھی بوجھ سے لگے
ہم اپنے درد و غم کو بھی تیرے انتظار میں گزارتے
قدم قدم پہ یاد تری، ساۓ کی طرح چلی
اگر یہ دل نہ مانتا، پھر بھی پیار میں گزارتے
نہ تھی اجازتِ وفا، نہ کوئی وعدۂ وصال
مگر تری وفا کا خواب ہم ہزار بار میں گزارتے
تھکا دیا ہے ہجر نے، نیند روٹھتی رہی
ہم رات کی ہر ایک گھڑی، تیری پکار میں گزارتے
ہمارے ہاتھ میں اگر ہوتے فیصلے کبھی
تو عمر بھر کی زندگی تیرے دیار میں گزارتے
نہ شکایت ہے، نہ امید کسی سے باقی
زندگی، تُو نے واقعی بہت کچھ دکھا دیا
ہم نے ہر سانس غم میں گنوائی ہے
یہ جو زندہ ہیں، بس رسماً جئے ہیں
دلِ مردہ دل نہیں ہے، اسے زندہ کر دوبارہ
کہ یہی ہے امتوں کے مرضِ کہن کا چارہ
ترے دِل تو ہیں صنم آشنا، تجھے کیا ملے گا نماز میں؟
نہ زباں میں لذّتِ فُرقتی، نہ دِلوں میں سوزِ گداز میں
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغِ راہ ہے، منزل نہیں ہے
رُلایا نہ کر مجھ کو اے گردشِ ایّام
فسانے کی لَے ہوں، کوئی ساز تو لا
دل توڑ گیا، خامشی بھی تیری
اور تیری سُخن فہمی بھی کم نہ تھی
یادِ ماضی عذاب ہے یا رب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
آمُدِ فصلِ گل ہے لیکن تُو
پُھول سا بھی گلاب ہے یا رب؟
تیرے جلووں کا رازداں ہو جاؤں
یہ تمنّا بھی خواب ہے یا رب
دل کو اب تک ہے تجھ سے امیدیں
یہ میری خوش فہمی، یا صواب ہے یا رب؟
زندگی کیا ہے؟ اک تماشہ ہے
جس میں ہر شخص لاجواب ہے یا رب
سر طور ہو سرِ حشر ہو
ہمیں انتظار قبول ہے
وہ کبھی ملیں وہ کہیں ملیں
وہ کبھی سہی وہ کہیں سہی
تلاش کرتے ہو اُس کو جو ہر سانس میں ہے?
چراغ ڈھونڈتے ہو اندھیروں کے شہر میں؟
وہی ہے بندۂ حر جس کی ضرب ہے کاری
نہیں ہے خاک کے ذروں میں غیرتِ فولاد
عقل کو تنقید سے فرصت نہیں
عشق پر اعمال کی بنیاد رکھ
نہ تھا کوئی تو، خُدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خُدا ہوتا
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا
خُدايا! شکوہِ اہلِ وفا بھی سُن خُموش ہيں، لبِ اہلِ دعا بھی سُن
دیا دل اگر اُس کو، تو یہ بھی بتا جفا کی ہے، یا وفا کی ہے؟ یہ بھی سُن
ہمیں تو ميسر نہيں مے کدہ ميں جو پينے والے ہيں، بے پروا بھی سُن
خُدايا! جَذبہءِ دل کی ہے انتہا تو کيا تجھے نہيں ہے خبر؟ بھی سُن
عقل نے ایک دن یہ دل سے کہا
بھولے بھٹکے کی رہنما ہوں میں
ہوں زمیں پر، سفر میں ہوں لیکن
دیکھتا ہوں جہاں نما ہوں میں
دل نے کہا: بس میری بھی سن
عشق ہوں، بے نیازی میری فطرت
تو فقط سازِ عقل کا پردہ
میں خدا کا پیام بر ہوں، میں
خاموش آہیں سنتا کوئی نہیں
دل کے اندر جھانکتا کوئی نہیں
ہنستا ہوں پر آنکھوں سے عیاں
دکھ کا دریا پیتا کوئی نہیں
چپکے سے جلتا رہتا ہوں
خاک ہوا پر بجھتا کوئی نہیں
محفل میں ہوں پر تنہا سا
ایسا درد سہتا کوئی نہیں
قہقہوں کے پیچھے چھپا دکھ
سچ مانیں، سمجھتا کوئی نہیں
یہ رات بہت چپ ہے، کیوں کر سویا جائے؟
سایہ بھی نہیں ساتھ، کس سے رویا جائے؟
خود سے بھی چھپایا، دنیا سے بھی چھپایا
اک درد ہے ایسا جو دل میں کھویا جائے
یادیں ہیں سُناتے، ہر شام کو چپ چاپ
کیا وقت بھی دشمن ہے، جو نہ ڈھلتا جائے؟
یہ دل تو سمندر تھا، ہر زخم کو پی گیا
آنکھوں سے نکل آیا، جو نہ پییا جائے
تم بن بھی جیا ہم نے، یہ اور بات ہے
پر سانس ہے خالی، جیسے کوئی کھویا جائے
آئینہ جب بھی سامنے آیا اک سوال دل میں جاں سے آیا
تو نے کیا پایا اس دنیا میں جو بھی آیا خالی ہاتھ آیا
وقت نے جو دیا، وہ زخم بن کر رہا،
ہر خوشی کا چہرہ بھی نم بن کر رہا۔ جن پہ ہم نے جان نچھاور کی کبھی، وہی سایہ بھی اب کم بن کر رہا۔ ہم تلاش میں رہے سچائی کے، جھوٹ ہر در پہ قسم بن کر رہا۔ مسکرانے کا ہنر چھن گیا ہم سے، غم کا چہرہ ہی ہم دم بن کر رہا۔
دل میں آج بھی تیری یاد زندہ ہے، اک چراغ ہے جو بے باد زندہ ہے۔ خواب ٹوٹے، مگر وہ چہرہ نہ بھولا، غم کا موسم ہے، اُمید زندہ ہے۔ تو گیا تو سب کچھ سُنّا سُنّا ہوا، پر تیری صدا ہر صُبح زندہ ہے۔ یاد کی رم جھم میں بھیگے لمحے،
برسوں بعد بھی ہر بات زندہ ہے۔وقت کے زخم مٹے نہیں اب تک، دل کے کرب میں اک فریاد زندہ ہے۔
زندگی ایک پل کا سفر ہے، کوئی خوابِ خوش رنگ سا بھی نہیں
یہ حقیقت کا آئینہ ہے، کوئی عکسِ فرہنگ سا بھی نہیں
ہنسی چہروں پہ سجی رہتی ہے، دلوں میں طوفاں چھپے ہوتے ہیں
یہ مسافر تو چپ چاپ چلتے ہیں، پر قدموں میں زنجیر ہوتی ہے
جو ملا، وہ کبھی پورا نہ ہوا، جو کھویا، وہی یاد آتا رہا
یہ فسانہ بھی کیا فسانہ ہے، جو ہر موڑ پہ رُلا جاتا ہے
وقت بے رحم قاضی کی مانند، نہ دلیل سنے، نہ گواہی دے
یہ سزا ہے یا امتحان کوئی، جو ہر ایک کو دیا جاتا ہے
زندگی! تو نے کیا کیا خواب دکھائے، پھر بے دردی سے توڑ بھی دیے
ہم نے ہر رنگ کو سچ سمجھا، اور تو نے سب کو مٹا دیا
کبھی دل کی دھڑکنوں میں، اک نرم سلام رہ گیا چلا گیا جو میرا تھا، بس تیرا نام رہ گیا نہ وعدے وفا ہوئے، نہ خواب مکمل ہوئے اک ادھورا سا رشتہ، اک خاموش انجام رہ گیا یادیں تو سب چھوڑی گئیں، پر مہک گئی ہر راہ دل کو جو چھو گیا تھا، وہی پیغام رہ گیا
اب وقت سے نہیں شکایت، نہ کسی سے شکوہ ہے پر دل کے اندر ابھی تک وہ خالی گوشہ ہے
جہاں کبھی کسی کی ہنسی گونجتی تھی اب صرف خامشی کا راج ہوتا ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain