مجھ کو مرے وجود میں بس تُو ہی تُو ملا ایسے تری مہک سے سنواری گئی ہوں میں لو آ گئی ہوں ہجر میں مرنے کے واسطے اتنے خلوص سے جو پکاری گئی ہوں مَیں مجھ کو کیا ہے خاک تو پھر خاک بھی اُڑا اے عشق تیری راہ میں واری گئی ہوں مَیں اس وجد میں موجود کہاں ہے مرا وجود جانے کہاں پہ ساری کی ساری گئی ہوں مَیں
تمام شہر کو جام و سبو کا مسئلہ ہے میں برگ خشک ہوں مجھ کو نمو کا مسئلہ ہے ادھڑتی خواہشوں کو سی لیا ہے لیکن اب پرانے زخم سے رستے لہو کا مسئلہ ہے بہت سے بد نظر آنکھیں نہیں ہٹاتے ہیں مرا نہیں یہ ہر اک خوبرو کا مسئلہ ہے تمہاری بزم میں ہر رنگ کے مسائل ہیں کہیں پہ چپ ، تو کہیں گفتگو کا مسئلہ ہے ہمیں تو اور بھی کارِ جہاں میسر ہیں ہر ایک شخص سے نفرت عدو کا مسئلہ ہے یہ کھیل دیکھنا ناکام ہونے والا ہے تماشہ گاہ میں جو ہاؤ ہو کا مسئلہ ہے ذرا سا نیند کی چادر میں چھید دیکھا ہے سو اہلِ خواب کو تب سے رفو کا مسئلہ ہے