حسن کو بے حجاب ہونا تھا شوق کو کامیاب ہونا تھا ہجر میں کیف اضطراب نہ پوچھ خون دل بھی شراب ہونا تھا تیرے جلووں میں گھر گیا آخر ذرے کو آفتاب ہونا تھا کچھ تمہاری نگاہ کافر تھی کچھ مجھے بھی خراب ہونا تھا رات تاروں کا ٹوٹنا بھی مجازؔ باعث اضطراب ہونا تھا
مجھ سے اونچا ترا قد ہے، حد ہے پھر بھی سینے میں حسد ہے، حد ہے میرے تو لفظ بھی کوڑی کے نہیں تیرا نقطہ بھی سند ہے، حد ہے زندگی کو ہے ضرورت میری اور ضرورت بھی اشد ہے، حد ہے بے تحاشہ ہیں ستارے لیکن چاند بس ایک عدد ہے، حد ہے جیم جاذل