وہ جو گیت تم نے سنا نہیں میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اُڑا گئے
مدتوں کے بعد ملی تھی اک خوشی
لوگوں نے یہ بھی چین لی خوشی خوشی
میرے ساتھ وہ رہے گا تو زمانہ کیا کہے گا
میری اک یہی تمنا ، اسے اک یہی بہانہ
میرے ساتھ وہ رہے گا تو زمانہ کیا کہے گا
میری اک یہی تمنا ، اسے اک یہی بہانہ
انگلیاں آج بھی اسی سوچ میں گم رہتی ہیں اس نے کیسے نئے ہاتھ کو تھاما ہوگا
رات ساری گزرتی ہے ان حسابوں میں اسے محبت تھی ؟ نہیں تھی ؟ ہے ؟نہیں ہے ؟
ہمیشہ محبت کو مجبوریاں لے ڈوبتی ہے ورنہ کوئی شوق سے بے وفا نہیں ہوتا
وہ بے وفا ہی سہی آؤ اسے یاد کریں کہ ایک عمر پڑی ہے اسے بھلانے میں
بے وفاؤں سے وفا کر کے گزاری ہے زندگی۔ میں برستا رہا ویرانوں میں بادل کی طرح۔
مجھے بھول جانےکا دعویٰ اپنی جگہ میرے نام پر تیرا چونک جانا اچھا لگا
کر لے کسی اور سے تو بھی تسلی سے وفا ہمارے بھی چاہنے والے کم نہیں