فبای آلای ربکما تکذبان یہ شعلہ یہ شبنم یہ مٹی یہ سنگ یہ جھرنوں کے بجتے ہوئے یہ جلترنگ یہ جھیلوں سے ہنستے ہوئے سے کنول یہ دھرتی پہ موسم کی لکھی غزل یہ سردی یہ گرمی یہ بارش یہ دھوپ یہ چہرہ یہ قد اور رنگ و روپ درندوں چرندوں پہ قابو دیا تجھے بھائی دے کر کے بازو دیا بہن دی تجھے اور شریک سفر یہ رشتے یہ ناطے یہ گھرانہ یہ گھر کہ اولاد بھی دی دیئے والدین ا ، ل ، م ، ق ، اور ، ع ، غ یہ عقل و ذہانت شعور و نظر یہ بستی یہ صحرا یہ خشکی یہ تر اور اس پر کتاب ہدایت بھی دی نبی بھی اتارے شریعت بھی دی غرض کہ سبھی کچھ ہے تیرے لیئے بتا کیا ، کیا تو نے میرے لئیے