,انگلینڈ ,1937- چیلسی اور چارلٹن کے مابین فٹ بال کا میچ 60 ویں منٹ میں شدید دھند کی وجہ سے رک گیا۔ لیکن چارلٹن کے گول کیپر سیمے بارٹرم کھیل کو روکنے کے 15 منٹ بعد بھی گول کے اندر موجود تھے- کیونکہ اس نے اپنے گول پوسٹ کے پیچھے ہجوم کی وجہ سے ریفری کی سیٹی نہیں سنی تھی۔ وہ اپنے بازوؤں کو پھیلائے ہوئے اور اپنی توجہ مرکوز کرکے گول پوسٹ پر کھڑا رہا- غور سے آگے دیکھتا رہا- پندرہ منٹ بعد جب سٹیڈیم کا سیکورٹی عملہ اس کے پاس پہنچا اور اسے اطلاع دی کہ میچ منسوخ کردیا گیا ہے- تو سام برترم نے شدید غم کے ساتھ کہا- ”کتنے افسوس کی بات ہے کہ جن کے دفاع کے لئے میں کھڑا تھا- وہ مجھے بھول گئے“- زندگی کے میدان میں کتنے ایسے ساتھی موجود ہوتے ہیں جن کے مفادات کے دفاع کیلۓ ہم نے اپنے وقت ,صلاحیت اور تواناٸی صرف کۓ ہوتے ہیں-
پڑھنے لکھنے اور جاب کے بعد جب میں ایک بنک کے بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کا ممبر بنا تو بورڈ آف ڈاٸریکٹرز کی ایک میٹنگ میں اچھے سے ڈراٸی کلین کیا ہوا لنڈے کا کوٹ پہن کر گیا تو میرے کولیگز کوٹ کو ہاتھ لگا کر پوچھنے لگے: ”خلیل صاحب بڑا پیارا کوٹ اے کیہڑا برانڈ اے تے کھتو لیا جے؟ کلاتھ تے سٹیچنگ وی کمال اے “ مَیں نے بِنا کوٸی شرم محسوس کرتے ہوٸے کہا: ”بھاٸی جان لنڈے چوں لیا اے“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں پھر بھی اُن کو اعتبار نہ آیا۔۔ اور اب کی بار میں رونے کی بجاٸے ہسنے لگ گیا تھا۔۔۔ سچ ہے یہ معاشرہ بڑا منافق ہے غریب کے سچ پر بھی اعتبار نہیں کرتا اور امیر کے جھوٹ پر بھی صداقت کی مہر لگا دیتا ہے۔۔۔
خلیل الرحمن قمر صاحب لکھتے ہیں کہ میں جب چھوٹا تھا تو بڑا انا پرست تھا اور غربت کے باوجود کبھی بھی یوزڈ یا لنڈے کے کپڑے نہیں پہنتا تھا ایک بار میرے ابا کو کپڑے کا سوٹ گفٹ ملا تو میں نے اُن سے کہا مجھے کوٹ سلوانا ہے تو ابا جی نے اجازت دے دی اور ہاف سوٹ سے میں نے گول گلے والا کوٹ_سلوا لیا جس کا اُن دنوں بڑا رواج تھا۔۔ وہ کوٹ پہن کر مَیں چچا کے گھر گیا تو چاچی اور کزنز نے فَٹ سے پوچھا: ”اویے_خیلے_اے_کوٹ_کتھو_لیا_ای۔؟ میں نے کہا: ”سوایا ہے چاچی“ لیکن وہ نہ مانے میں نے قسمیں بھی کھاٸیں لیکن اُن کو اعتبار نہ آیا خالہ اور پھوپھو کے گھر گیا تو وہاں بھی کچھ ایسا ہی ہوا میں گھر آیا اور کوٹ اُتار کر پھینک دیا اور رونے لگ گیا۔۔ حالات کچھ ایسے تھے کہ کوٸی بھی ماننے کو تیار ہی نہیں تھا کہ خیلہ بھی نیا کوٹ سلوا سکتا ہے۔..۔