لوٹ آیا ہوں پھر اپنی تنہائی میں واپس
کوئی لے گیا تھا مجھے اپنی محفل کا لالچ دے کر
چاہیے وہ تکلیف کتنی بھی دے
لیکن سکون اسی کے پاس ملتا ہے
ہم ہیں اک اداس شام کا قصہ
لوگ سنیں گے گزر جائیں گے
عشق دا ایہہ پکا اصول ایں
یار باجھوں ہر شے فضول اے
جب سے تیری محفل نصیب ہوئی ہے
ساری دنیا میری رقیب ہوئی ہے
ایسی جنت کو لے کے میں کیا کرو
بعد مرنے کے جو نصیب ہوئی ہے
جب ستارے ہی نہیں مل پاۓ
لے کے ہم شمس و قمر کیا کرتے
اتنا تو کسی نے چاہا بھی نہیں ہوگا
جتنا ہم نے صرف سوچا ہے تمہیں
ہم تیری زندگی سے یوں جاۓ گے
جیسے حادثے میں جان چلی جاتی ہے
مجھے بھی سکھا دو بھول جانے کا ہنر
مجھ سے راتوں کو اٹھ اٹھ کر رویا نہیں جاتا
ضد نہ کر اے دل
وہ بڑے لوگ ہیں
اپنی مرضی سے بات کرتے ہیں
سمجھایا بھی تھا دنیا شک کرتی ہے
گزر جایا کر مسکرایا نا کر
لہجے سمجھ آتے ہیں مجھے
بس لوگوں کو شرمندہ کرنا اچھا نہیں لگتا
جس دوست کے ساتھ سکون ملتا ہے
اس کے ساتھ وقت بھی بہت کم ملتا ہے
میڈی غربت شاکر جرم تاں نئیں
بندے یار غریب وی ہوندن
اُڑتے ہوۓ پرندو کو قید نہیں کیا کرے فراز
جو اپنے ہوتے ہیں وہ خود ہی لوٹ آتے ہیں
تلاش کر نہ سکو گےپل پھر مجھے وہاں جا کر
غلط سمجھ کر جہاں تم نے کھو دیا تھا مجھے
میکوں آپڑیں نال رلائی رکھ
کوئی پیچھے تے آکھیں نوکر ہے
جنہوں نے قطرہ بھر بھی ساتھ دیا ہمارا
وقت نے موقع دیا تو سمندر لوٹائیں گے
good night
ہمیں نصیب کے چکر میں ڈال کر اس نے
کسی کے بخت سنوارے ہیں اپنے ہاتھوں سے
نِکل کے ہیں خِرد کی حدوں سے دیوانے
اب اہل ہوش سے کہے دو نہ آئیں سمجھانے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain