جانے وہ کیسے لوگ تھے جن کو پیار سے پیار ملا
ہم نے تو جب کلیاں مانگیں کانٹوں کا ہار ملا
خوشیوں کی منزل ڈھونڈی تو غم کی گرد ملی
چاہت کے نغمے چاہے تو آہ سرد ملی
دل کے بوجھ کو دونا کر گیا جو غم خوار ملا
بچھڑ گیا ہر ساتھی دے کر پل دو پل کا ساتھ
کس کو فرصت ہے جو تھامے دیوانوں کا ہاتھ
ہم کو اپنا سایہ تک اکثر بیزار ملا
اس کو ہی جینا کہتے ہیں تو یوں ہی جی لیں گے
اف نہ کریں گے لب سی لیں گے آنسو پی لیں گے
غم سے اب گھبرانا کیسا غم سو بار ملا
وہ باتیں کھا گئی مجھ کو
جو باتیں پی گئی تھی میں
ہم کہ دکھ اوڑھ کے خلوت میں پڑے رہتے ہیں
ہم نے بازار میں زخموں کی نمائش نہیں کی
احمد فراز
بد ذوق ہے احباب سے گو ذوق ہیں رنجور
اردوئے معلیٰ کے نہ ماتم سے رہیں دور
تلقین سر قبر پڑھیں مومن مغفور
فریاد دل غالبؔ مرحوم سے نکلے
اردو کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain