Damadam.pk
Sparrow.honey's profile | Damadam

Sparrow.honey's profile:

Profile photo:
pic loading ...
About Sparrow.honey:
Intro: پھر چشم فلک نے وہ وقت بھی دیکھا جب ہم اس چوراہے سے بايیں کے بجايے دايیں جانب مڑ جاتے تھے۔۔۔ مگر نماز تب بھی بھلا کون پڑھتا تھا۔۔۔ وہ تو مسجد کے سامنے والی گلی میں ذرا اگے کو جا کر 'گیم زون' کھلا تھا۔۔۔ وہاں 'ایکس باکس' اور 'پلےاسٹیشن۲' براجمان ہوتے تھے۔۔۔ وہیں اپنا کثیر وقت پھینک اتے تھے۔۔۔ گو کہ یہ چیزیں گھر میں پہلے سے ہی موجود تھیں، مگر ہم وہاں جا کر تبرک کشید کرنا عین مستحب سمجھتے تھے؛ کہ کیا معلوم نروانہ وہیں سے ہاتھ لگ جايے، اور وہ بھی تھوک کے حساب سے، چہ عجب۔۔۔ اور ہاں، اس دوران کاسہ سر پر نیم مدور، چوکور شطرنجی سوراخوں والی، جالی دار سفید ٹوپی دھرے رکھنے میں بھی مطلقا کويی مضايقہ نہ محسوس کرتے تھے، بقول قمر ع~ کہ دیکھیں لوگ تو سمجھیں بڑے الله والے ہیں ایک دفعہ تو بال بال پھنستے بھی بچے۔۔۔ بلکہ برے پھنسے۔۔۔ ہوا یہ کہ ان دنوں کراچی سے خالہ زاد برامد کیا ہوا تھا۔۔۔ تس پر طرہ یہ کہ ہم اس کو شریک راز کر بیٹھے۔۔۔ مزید یہ کہ وہ حضرت ہم سے کسی بات پر ناراض ہو گيے۔۔۔ بس، پھر کیا تھا؛ ہمارا راز طشت از بام ہو گیا۔۔۔ مگر ہم نے بھی کچی گولیاں کہاں کھیلی تھیں۔۔۔ عبقری نسخہ ہايے کیمیا برايے کیل، مہاسوں سے نجات ازبر تھے۔۔۔ انھی نے رسد بہم پہنچايی۔۔۔ ایسی پیش بندی نقشبندی مجددی کی، کہ یہ تو نہ ہوا کہ گھر والوں کو اس سب کی خبر نہ ہويی؛ مگر یہ بات مخفی ہی رہی کہ اپنی نمازیں بھی ادھر ہی گول ہوتی رہی ہیں۔۔۔ گھر والے فقط یہ سمجھے کہ وہاں کبھی کبھار (یہی کويی دن میں چار پانچ مرتبہ) جاتے ہیں۔۔۔ گو کہ محض ویڈیو گیم کی دکان پر جانا ہی گھر والوں کے نزدیک انتہايی قبیح فعل ثابت ہوا۔۔۔ اور ہمارے ساتھ جو کچھ ہونا تھا، وہ ہوا۔۔۔ اور خوب ہوا۔۔۔ ہمارے گھر میں جوتیوں کی قلت کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے۔۔۔ اخر ہم ماما، بابا کے ہاتھوں کی جوتیاں بہت رغبت سے جو 'کھاتے' ہیں۔۔۔ مگر خیر۔۔۔! معانی، الفاظ کا ملبوس ليے، جہان صفحہ پر ثبت ہونے کو بےچین بیٹھے ہیں۔۔۔ جانے کیوں؛ مگر جتنے بھی بڑے بڑے گناہ کيے، اکثر رمضان میں ہی سرزد ہويے۔۔۔ یا شاید، ایسا زود پشیمانی کے باعث محسوس ہوتا ہے۔۔۔ خیر۔۔۔ سب سے پہلا 'ایم پی ۳ پلیير' بھی رمضان میں ہی، اپنے ایک دوست کے ساتھ اشتراک کر کے، مبلغ سات، ساڑھے سات سو روپے کا، بازار سے بارعایت خرید فرمایا تھا۔۔۔ کیا، کیا گانے سنے۔۔۔ اور خوب سنے۔۔۔ اپنا گانوں کا ذايقہ بھی اک ذرا منفرد قسم کا تھا۔۔۔ دیسی اور ولایتی، دونوں ہی مرغوب تھے۔۔۔ بلکہ نوبت تو یہ تھی، کہ انگریزی گانوں کے بول (لرکس) تک نیٹ سے نکال نکال کر یاد کرتے تھے۔۔۔ اور عند الله ماجور ہونے کی کوشش کرتے تھے۔۔۔ اج بھی یاد ہے؛ رمضان کے عشرہ مغفرت کا دور دورہ تھا۔۔۔ مسجد میں تراویح سنايی جا رہی تھیں۔۔۔ اور، ہم دونوں حفاظ دامت برکاتہم، مسجد کے عین سامنے والے گھر کے دوسرے پختہ زینے پر بیٹھے، کانوں میں گناہ انڈیلتے، مغفرت کرانے میں مصروف تھے۔۔۔ میں گانوں کے حرام، حلال ہونے کی بحث میں نہیں پڑنا چاہتا؛ مگر جو ایک بات ہے، اور سیدھی بات ہے۔۔۔ وہ یہ ہے کہ کم از کم محمد صلی الله علیہ و سلم کو اسوہ حسنہ ماننے والا ان کو ہرگز، ہرگز پسند نہیں کر سکتا۔۔۔! تو خیر۔۔۔ گالیوں میں بھی ہمارا کويی ثانی نہیں تھا، اللہ کے فضل سے۔۔۔ بلکہ اکثر تو ایسامعلوم ہوتا گویا منھ کے عین اگے کچرا گھر واقع ہے۔۔۔ بات نکلتی نہیں تھی، کہ تھوک کے حساب سے، موقعہ کی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہويے، جملے کو مزین کرنے واسطے، گالیاں بہہ، بہہ جاتی تھیں۔۔۔ یا یہی کہنا شاید کافی ہو، کہ اس وقت اگر لکھتے ہوتے تو 'کالم نگاری' کے بجايے 'گالم نگاری' کرتے۔۔۔ اب تو خیالات میں وہ ندرت ہی باقی نہ رہی؛ بلکہ اب تو کويی گالی دے بھی دے، تو یہی ہوتا ہے زیادہ سے زیادہ کہ: اس نے گالی دی، اور ہم نے لے لی۔۔۔ اللہ، اللہ، خیر صلہ۔۔۔! اور ہاں، یاد ایا۔۔۔ مسجد میں بیٹھے ہويے تھے ہم ایک مرتبہ، قاری صاحب کے ساتھ۔۔۔ ہماری حالت تو وہی تھی کہ بقول مومن ~ کل جو مسجد میں جا پھنسے مومن رات کاٹی خدا خدا کر کے حضرت ایک بچے کی کارکردگی زہر مار کروا رہے تھے۔۔۔ تعریفانہ لہجے میں بولے: 'اس حرامی نے دس پارے حفظ کيے ہويے ہیں۔۔۔!' اس کے جواب میں ہم 'ماشاء اللہ'، 'سبحان اللہ' یا 'واہ' کے علاوہ بھلا کیا کہہ سکتے تھے۔۔۔ سو، کہہ، چپ ہو رہے۔۔۔ ہمارا حسن ظن کہتا ہے کہ یہ معیوب لفظ وہ عربی میں کہہ رہے تھے۔۔۔ جیسا کہ صریر احمد نے اپنے 'ایک عجمی کی عربی کا احوال' میں فرمایا کہ عجمی و عربی حرامی میں زمین اسمان کا فرق ہے۔۔۔ گو کہ دونوں ہی منفی ہیں مگر عربی میں یہ چور کیليے مستعمل ہے۔۔۔ اردو والے سے تو بہتر ہی ہے۔۔۔! ہاں، ہاں؛ معلوم ہے۔۔۔ یہ تحریر بھی شیطان کی انت ہو چکی۔۔۔ مگر اپنے اثار قدیمہ بھی اب اتنے مختصر نہیں کہ اتنی جلدی قصہ پارینہ ہو رہیں۔۔۔ اس بات پر بھی مجھے شک ہے کويی اب تک پڑھ ہی رہا ہوگا۔۔۔ مگر خیر، کیا فرق پڑتا ہے۔۔۔! ع~ یہ پیش لفظ تھا، جس نے رلا دیا تجھ کو خیر۔۔۔ یاد تو اور بھی بہت کچھ ا رہا ہے؛ مگر کسر نفسی کے باعث بیان سے باہر ہے۔۔۔ شاید دس سال ہوتے ہیں۔۔۔ یا بارہ۔۔۔ وہ، ہر روز دوپہر کے وقت، بچپن میں، گرمیوں کی چھٹیوں میں بلا ناغہ، 'مولان' مووی دیکھنا۔۔۔ وہ، چھالیہ وغیرہ کھاتے کھاتے، دوست کے کہنے پر، کچھ اور بھی پھانک رہنا؛ اور پھر عجب جذب کے عالم میں اوارہ گردی کرتے پھرنا گلیوں، گلیاروں میں۔۔۔ پھر چھالیہ، سپاریوں تک سے توبہ کرنا، اور سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنا؛ کہ اخر کانچ کی کرچیوں کا ذايقہ خون جیسا کیوں ہوتا ہے۔۔۔! ~ یاد ماضی عذاب ہے یارب چھین لے مجھ سے حافظہ میرا جانے کیوں، لیکن یہ شعر پڑھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے؛ گویا اس کے دوسرے مصرعے میں جنس، یعنی کہ مذکر، مونث میں کويی بہت ہی نامعقول اور غیر ارام دہ سی، فاش قسم کی غلطی رہی ہو۔۔۔ مگر خیر۔۔۔! اما بعد۔۔۔ جانے کیوں، اور کیسے، یک گونہ احساس کی نمود ہويی۔۔۔ لگا؛ گویا کہ کچھ غلط چل رہا ہے زندگی میں۔۔۔ کچھ غلط، بہت غلط۔۔۔ کچھ ایسا، جسے نہیں ہونا چاہيے۔۔۔ بالکل بھی نہیں ہونا چاہيے۔۔۔ کسی بھی حالت میں۔۔۔ دیروز تا امروز کی داستان کے زحاف زدہ صفحے الٹنے لگے۔۔۔ واپسی کا سفر طے کرنے لگے۔۔۔ ایک نيی کھکھوڑ شروع ہويی۔۔۔ اگہی کے در وا ہونے شروع ہويے۔۔۔ احباب دور ہونے لگے۔۔۔ وہ جو ہر گناہ میں ساتھ دیتے نہ تھکتے تھے، کہنے لگے؛ کیا مولوی ہو رہا ہے۔۔۔ اور ہم مسکرا اٹھے۔۔۔ یا شاید رو دیے۔۔۔ کہ تمھیں کچھ نہیں معلوم۔۔۔ کچھ نہیں معلوم۔۔۔ کاش کہ تمھیں معلوم ہوتا۔۔۔ اور مزے کی بات تو یہ تھی؛ کہ معلوم تو ہمیں بھی کچھ نہیں تھا۔۔۔ مگر یہی تو فرق تھا؛ کہ کم از کم یہ تو معلوم تھا ، کہ کچھ نہیں معلوم۔۔۔ وہ چھوڑ کر چلے گيے مجھے۔۔۔ سب چھوڑ کر چلے گيے۔۔۔ کیا تم یقین کروگے۔۔۔!؟ مگر نہیں۔۔۔ تم کیوں یقین کروگے۔۔۔ لیکن پھر بھی، میں تمھیں بتاتا ہوں۔۔۔ میں رویا تھا۔۔۔ بہت رویا تھا۔۔۔ اور رب، ھھھھھ، وہ ضرور اس ادا پر مسکرا دیا ہوگا۔۔۔ کہ بقول مجاز ~ ہنس دیے، وہ میرے رونے پر مگر ان کے ہنس دینے میں بھی اک راز ہے بہت وحشت ہوتی تھی۔۔۔ عجب مزاج ہو گیا تھا۔۔۔ الحاد سے دل خوگر ہونے لگا تھا۔۔۔ لیکن رب۔۔۔ میرا رحیم و کریم رب۔۔۔ وہ دور کہاں تھا۔۔۔ دور تو میں تھا۔۔۔ وہ تو منتظر تھا۔۔۔ ہمیشہ سے منتظر تھا۔۔۔ تشنہ مضراب سماعت نے کلام کا لمس محسوس کیا۔۔۔ الم یان للذین امنوا ان تخشع قلوبھم لذکر الله و مانزل من الحق و لایکونوا کالذین اوتوا الکتاب من قبل فطال علیھم الامد فقست قلوبھم و کثیر منھم فاسقون ﴿الحدید - ۱۶﴾ "کیا اب بھی، ان لوگوں کیليے جو ایمان لايے، وہ وقت نہیں ایا کہ ان کے دل الله کی یاد، اور جو کچھ حق کی طرف سے نازل ہوا ہے، کیليے نرم پڑ جايیں، اور؛ تاکہ وہ ان لوگوں جیسے نہ ہو جايیں جنھیں پہلے کتاب دی گيی تھی؛ پھر ان پر طویل زمانہ گزر گیا تو ان کے دل سخت ہو گيے۔ اور ان میں سے اکثر جان بوجھ کر گناہ کرنے والے ہیں۔" ماہيیت قلب کیا ہوتی ہے۔۔۔!؟ یہ تب ہی معلوم ہوا۔۔۔ تب ہی سمجھ ایا کہ؛ ایک دفعہ بندے کو بیٹھ کر سوچنا پڑتا ہے۔۔۔ 'اقرار باللسان' تو بچپن سے کرتے ا رہے ہوتے ہیں۔۔۔ 'تصدیق بالقلب' ایک دفعہ کرنا پڑتا ہے۔۔۔ ایک مرتبہ پھر سے اسلام کو دریافت کرنا پڑتا ہے۔۔۔ کہنا پڑتا ہے، 'سمعنا و اطعنا'؛ ہم نے سنا اور سر تسلیم خم کیا۔۔۔ اس کے بعد کچھ بھی انتخابی (اپشنل) نہیں رہتا۔۔۔ کچھ بھی نہیں۔۔۔ کیونکہ راستے کے معلوم ہونے، اور اس پر چلنے میں زمین اسمان کا فرق ہوتا ہے۔۔۔ اور اپنی مرضی کے راستے پر چلنے کیليے، بہرحال، وہ راستہ چھوڑنا ازبس ضروری ہوتا ہے؛ جو اپکی منشا کے مطابق نہیں ہوتا۔۔۔ کیونکہ اپ کے منشا کچھ ہوتی ہی نہیں۔۔۔ فقط رب کی منشا ہوتی ہے۔۔۔ اور راضی بہ رضا ہونا ہوتا ہے۔۔۔ اجل گرفتہ قلم یہ سب انڈیلتے لڑکھڑا رہا ہے۔۔۔ مگر یہ سچ ہے، اور صرف یہی سچ ہے؛ کہ جو اس کے بعد بھی کان نہیں دھرتا، وہ برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔۔۔ بالکل برباد۔۔۔ ابتر۔۔۔! ~ سارا عالم گوش بر اواز ہے اج کن ہاتھوں میں دل کا ساز ہے ~ تو جہاں ہے زمزمہ پرداز ہے دل جہاں ہے گوش بر اواز ہے بعدہ۔۔۔ اپنے کيے پر ندامت ہويی۔۔۔ گناہوں نے کبھی دامن نہیں چھوڑا۔۔۔ بلکہ گزرتے وقت کے ساتھ مزید گناہ گار ہوتے رہے۔۔۔ مگر پانچواں کلمہ ڈھارس بندھاتا رہا۔۔۔ اپنے نبی کریم صلی الله علیہ و سلم کا کہا نظروں سے گزرا { كل بني ادم خطاء, وخير الخطايين التوابون } اخرجه الترمذي, وابن ماجه, وسنده قوي.‏ (۱۹۳۶)‏ 'ہر ابن ادم گناہ گار ہے؛ اور بہترین گناہ گار وہ ہے، جو توبہ کر لے۔۔۔!' یہ پڑھا تو دل بے اختیار وہی شعر پکار اٹھا، جس کا ذکر ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ نے، حضرت محمد صلی الله علیہ و سلم کی نسبت سے کیا تھا۔۔۔ یہ بات اپنے اپ میں ہی کتنی حسین محسوس ہوتی ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک پر یہ شعر اکثر جاری ہوتا تھا ~ ان تغفر اللھم تغفر جما و اي عبد لك ما الما کہ ربا، اگر تو مغفرت فرماتا ہے تو پوری طرح ہی معاف کر دے۔۔۔ وگرنہ تیرا کونسا بندہ گناہوں سے مبرا ہے۔۔۔!؟ اور پھر، کہنے والے نے کہا۔۔۔ جیسا کہ کہنے کا حق تھا۔۔۔ اور کیا خوب کہنے کا حق تھا۔۔۔ حکم ہوا: قل اعوذ برب الناس ﴿۱﴾ ملك الناس ﴿۲﴾ الہ الناس ﴿۳﴾ کہو! میں پناہ مانگتا ہوں؛ انسانوں کے رب، انسانوں کے بادشاہ، انسانوں کے معبود کی۔۔۔! ~ چھپ گيے وہ ساز ہستی چھیڑ کر اب تو بس اواز ہی اواز ہے الله اکبر کبیرا، و الحمد للہ کثیرا، و سبحان الله بکرة و اصیلا. (اب ہم ماما سے پٹنے کی تیاری کرتے ہیں۔۔۔!) یاد ماضی : قسط

City: Abbottabad
Star sign: Not set
Gender: Female
Married: Yes
Age: 30
Joined: 8 years, 4 months ago
Popularity:
Followers: 3 verified followers
0 unverified followers