Damadam.pk
itsadi's profile | Damadam

itsadi's profile:

Profile photo:
pic loading ...
Mehfil(s) owned:
Mehfil Me Hogi Adab E Kamil Baten
owner since 31 months ago
Religion
Everyone
All cities
About itsadi:
Intro: : وفات سے 3 روز قبل جبکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ام المومنین حضھرت میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے گھر تشریف فرما تھے، ارشاد فرمایا کہ "میری بیویوں کو جمع کرو۔" تمام ازواج مطہرات جمع ہو گيیں۔ تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: "کیا تم سب مجھے اجازت دیتی ہو کہ بیماری کے دن میں عايشہ (رضی اللہ عنہا) کے ہاں گزار لوں؟" سب نے کہا اے اللہ کے رسول اپ کو اجازت ہے۔ پھر اٹھنا چاہا لیکن اٹھہ نہ پايے تو حضرت علی ابن ابی طالب اور حضرت فضل بن عباس رضی اللہ تعالی عنہما اگے بڑھے اور نبی علیہ الصلوة والسلام کو سہارے سے اٹھا کر سیدہ میمونہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے سے سیدہ عايشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے حجرے کی طرف لے جانے لگے۔ اس وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بیماری اور کمزوری کے) حال میں پہلی بار دیکھا تو گھبرا کر ایک دوسرے سے پوچھنے لگے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو کیا ہوا؟ چنانچہ صحابہ مسجد میں جمع ہونا شروع ہو گيے اور مسجد شریف میں ایک رش لگ ہوگیا۔ انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا پسینہ شدت سے بہہ رہا تھا۔ حضرت عايشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اپنی زندگی میں کسی کا اتنا پسینہ بہتے نہیں دیکھا۔ اور فرماتی ہیں: "میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دست مبارک کو پکڑتی اور اسی کو چہرہ اقدس پر پھیرتی کیونکہ نبی علیہ الصلوة والسلام کا ہاتھ میرے ہاتھ سے کہیں زیادہ محترم اور پاکیزہ تھا۔" مزید فرماتی ہیں کہ حبیب خدا علیہ الصلوات والتسلیم سے بس یہی ورد سنايی دے رہا تھا کہ "لا اله الا الله، بیشک موت کی بھی اپنی سختیاں ہیں۔" اسی اثناء میں مسجد کے اندر انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے بارے میں خوف کی وجہ سے لوگوں کا شور بڑھنے لگا۔ نبی علیہ السلام نے دریافت فرمایا: "یہ کیسی اوازیں ہیں؟ عرض کیا گیا کہ اے اللہ کے رسول! یہ لوگ اپ کی حالت سے خوف زدہ ہیں۔ ارشاد فرمایا کہ مجھے ان پاس لے چلو۔ پھر اٹھنے کا ارادہ فرمایا لیکن اٹھہ نہ سکے تو اپ علیہ الصلوة و السلام پر 7 مشکیزے پانی کے بہايے گيے، تب کہیں جا کر کچھ افاقہ ہوا تو سہارے سے اٹھا کر ممبر پر لایا گیا۔ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا اخری خطبہ تھا اور اپ علیہ السلام کے اخری کلمات تھے۔ فرمایا: " اے لوگو۔۔۔! شاید تمہیں میری موت کا خوف ہے؟" سب نے کہا: "جی ہاں اے اللہ کے رسول" ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! تم سے میری ملاقات کی جگہ دنیا نہیں، تم سے میری ملاقات کی جگہ حوض (کوثر) ہے، خدا کی قسم گویا کہ میں یہیں سے اسے (حوض کوثر کو) دیکھ رہا ہوں، اے لوگو۔۔۔! مجھے تم پر تنگدستی کا خوف نہیں بلکہ مجھے تم پر دنیا (کی فراوانی) کا خوف ہے، کہ تم اس (کے معاملے) میں ایک دوسرے سے مقابلے میں لگ جاو جیسا کہ تم سے پہلے (پچھلی امتوں) والے لگ گيے، اور یہ (دنیا) تمہیں بھی ہلاک کر دے جیسا کہ انہیں ہلاک کر دیا۔" پھر مزید ارشاد فرمایا: "اے لوگو۔۔! نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سےڈرو۔ نماز کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، اللہ سے ڈرو۔" (یعنی عہد کرو کہ نماز کی پابندی کرو گے، اور یہی بات بار بار دہراتے رہے۔) پھر فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرو، میں تمہیں عورتوں سے نیک سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔" مزید فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ایک بندے کو اللہ نے اختیار دیا کہ دنیا کو چن لے یا اسے چن لے جو اللہ کے پاس ہے، تو اس نے اسے پسند کیا جو اللہ کے پاس ہے" اس جملے سے حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا مقصد کويی نہ سمجھا حالانکہ انکی اپنی ذات مراد تھی۔ جبکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ وہ تنہا شخص تھے جو اس جملے کو سمجھے اور زارو قطار رونے لگے اور بلند اواز سے گریہ کرتے ہويے اٹھہ کھڑے ہويے اور نبی علیہ السلام کی بات قطع کر کے پکارنے لگے۔۔۔۔ "ہمارے باپ دادا اپ پر قربان، ہماری مايیں اپ پر قربان، ہمارے بچے اپ پر قربان، ہمارے مال و دولت اپ پر قربان....." روتے جاتے ہیں اور یہی الفاظ کہتے جاتے ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم (ناگواری سے) حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف دیکھنے لگے کہ انہوں نے نبی علیہ السلام کی بات کیسے قطع کردی؟ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا دفاع ان الفاظ میں فرمایا: "اے لوگو۔۔۔! ابوبکر کو چھوڑ دو کہ تم میں سے ایسا کويی نہیں کہ جس نے ہمارے ساتھ کويی بھلايی کی ہو اور ہم نے اس کا بدلہ نہ دے دیا ہو، سوايے ابوبکر کے کہ اس کا بدلہ میں نہیں دے سکا۔ اس کا بدلہ میں نے اللہ جل شانہ پر چھوڑ دیا۔ مسجد (نبوی) میں کھلنے والے تمام دروازے بند کر دیے جايیں، سوايے ابوبکر کے دروازے کے کہ جو کبھی بند نہ ہوگا۔" اخر میں اپنی وفات سے قبل مسلمانوں کے لیے اخری دعا کے طور پر ارشاد فرمایا: "اللہ تمہیں ٹھکانہ دے، تمہاری حفاظت کرے، تمہاری مدد کرے، تمہاری تايید کرے۔ اور اخری بات جو ممبر سے اترنے سے پہلے امت کو مخاطب کر کے ارشاد فرمايی وہ یہ کہ: "اے لوگو۔۔۔! قیامت تک انے والے میرے ہر ایک امتی کو میرا سلام پہنچا دینا۔" پھر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دوبارہ سہارے سے اٹھا کر گھر لے جایا گیا۔ اسی اثناء میں حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ خدمت اقدس میں حاضر ہويے اور ان کے ہاتھ میں مسواک تھی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کو دیکھنے لگے لیکن شدت مرض کی وجہ سے طلب نہ کر پايے۔ چنانچہ سیدہ عايشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دیکھنے سے سمجھ گيیں اور انہوں نے حضرت عبدالرحمن رضی اللہ عنہ سے مسواک لے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے دہن مبارک میں رکھ دی، لیکن حضور صلی اللہ علیہ و سلم اسے استعمال نہ کر پايے تو سیدہ عايشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے مسواک لے کر اپنے منہ سے نرم کی اور پھر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو لوٹا دی تاکہ دہن مبارک اس سے تر رہے۔ فرماتی ہیں: " اخری چیز جو نبی کریم علیہ الصلوة والسلام کے پیٹ میں گيی وہ میرا لعاب تھا، اور یہ اللہ تبارک و تعالی کا مجھ پر فضل ہی تھا کہ اس نے وصال سے قبل میرا اور نبی کریم علیہ السلام کا لعاب دہن یکجا کر دیا۔" ام المومنين حضرت عايشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا مزید ارشاد فرماتی ہیں: "پھر اپ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیٹی فاطمہ تشریف لايیں اور اتے ہی رو پڑیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اٹھہ نہ سکے، کیونکہ نبی کریم علیہ السلام کا معمول تھا کہ جب بھی فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا تشریف لاتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم انکے ماتھے پر بوسہ دیتےتھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا اے فاطمہ! "قریب اجاو۔۔۔" پھر حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کے کان میں کويی بات کہی تو حضرت فاطمہ اور زیادہ رونے لگیں، انہیں اس طرح روتا دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا اے فاطمہ! "قریب او۔۔۔" دوبارہ انکے کان میں کويی بات ارشاد فرمايی تو وہ خوش ہونے لگیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد میں نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا سے پوچھا تھا کہ وہ کیا بات تھی جس پر رويیں اور پھر خوشی اظہار کیا تھا؟ سیدہ فاطمہ رضی اللہ تعالی عنھا کہنے لگیں کہ پہلی بار (جب میں قریب ہويی) تو فرمایا: "فاطمہ! میں اج رات (اس دنیاسے) کوچ کرنے والا ہوں۔ جس پر میں رو دی۔۔۔۔" جب انہوں نے مجھے بےتحاشا روتے دیکھا تو فرمانے لگے: "فاطمہ! میرے اہل خانہ میں سب سے پہلے تم مجھ سے ا ملو گی۔۔۔" جس پر میں خوش ہوگيی۔۔۔ سیدہ عايشہ رضی اللہ تعالی عنھا فرماتی ہیں: پھر انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو گھر سے باھر جانے کا حکم دیکر مجھے فرمایا: "عايشہ! میرے قریب اجاو۔۔۔" انحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ مطہرہ کے سینے پر ٹیک لگايی اور ہاتھ اسمان کی طرف بلند کر کے فرمانے لگے: مجھے وہ اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔ (میں الله کی، انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین کی رفاقت کو اختیار کرتا ہوں۔) صدیقہ عايشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں: "میں سمجھ گيی کہ انہوں نے اخرت کو چن لیا ہے۔" جبريیل علیہ السلام خدمت اقدس میں حاضر ہو کر گویا ہويے: "یارسول الله! ملک الموت دروازے پر کھڑے شرف باریابی چاہتے ہیں۔ اپ سے پہلے انہوں نے کسی سے اجازت نہیں مانگی۔" اپ علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا: "جبریل! اسے انے دو۔۔۔" ملک الموت نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے گھر میں داخل ہويے، اور کہا: "السلام علیک یارسول الله! مجھے اللہ نے اپ کی چاہت جاننے کیليےبھیجا ہے کہ اپ دنیا میں ہی رہنا چاہتے ہیں یا الله سبحانہ وتعالی کے پاس جانا پسند کرتے ہیں؟" فرمایا: "مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے، مجھے اعلی و عمدہ رفاقت پسند ہے۔" ملک الموت انحضرت صلی الله علیہ وسلم کے سرہانے کھڑے ہويے اور کہنے لگے: "اے پاکیزہ روح۔۔۔! اے محمد بن عبدالله کی روح۔۔۔! الله کی رضا و خوشنودی کی طرف روانہ ہو۔۔۔! راضی ہوجانے والے پروردگار کی طرف جو غضبناک نہیں۔۔۔!" سیدہ عايشہ رضی الله تعالی عنہا فرماتی ہیں: پھر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم ہاتھ نیچے ان رہا، اور سر مبارک میرے سینے پر بھاری ہونے لگا، میں سمجھ گيی کہ انحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا۔۔۔ مجھے اور تو کچھ سمجھ نہیں ایا سو میں اپنے حجرے سے نکلی اور مسجد کی طرف کا دروازہ کھول کر کہا۔۔ "رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔! رسول الله کا وصال ہوگیا۔۔۔!" مسجد اہوں اور نالوں سے گونجنے لگی۔ ادھر علی کرم الله وجہہ جہاں کھڑے تھے وہیں بیٹھ گيے پھر ہلنے کی طاقت تک نہ رہی۔ ادھر عثمان بن عفان رضی الله تعالی عنہ معصوم بچوں کی طرح ہاتھ ملنے لگے۔ اور سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ تلوار بلند کرکے کہنے لگے: "خبردار! جو کسی نے کہا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم وفات پا گيے ہیں، میں ایسے شخص کی گردن اڑا دوں گا۔۔۔! میرے اقا تو الله تعالی سے ملاقات کرنے گيے ہیں جیسے موسی علیہ السلام اپنے رب سے ملاقات کوگيے تھے، وہ لوٹ ايیں گے، بہت جلد لوٹ ايیں گے۔۔۔۔! اب جو وفات کی خبر اڑايے گا، میں اسے قتل کرڈالوں گا۔۔۔" اس موقع پر سب زیادہ ضبط، برداشت اور صبر کرنے والی شخصیت سیدنا ابوبکر صدیق رضی الله تعالی عنہ کی تھی۔۔۔ اپ حجرہ نبوی میں داخل ہويے، رحمت دوعالم صلی الله علیہ وسلم کے سینہ مبارک پر سر رکھہ کر رو دیيے۔۔۔ کہہ رہے تھے: وااا خليلاه، وااا صفياه، وااا حبيباه، وااا نبياه (ہايے میرا پیارا دوست۔۔۔! ہايے میرا مخلص ساتھی۔۔۔!ہايے میرا محبوب۔۔۔! ہايے میرا نبی۔۔۔!) پھر انحضرت صلی علیہ وسلم کے ماتھے پر بوسہ دیا اور کہا: "یا رسول الله! اپ پاکیزہ جيے اور پاکیزہ ہی دنیا سے رخصت ہوگيے۔" سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ باہر ايے اور خطبہ دیا: "جو شخص محمد صلی الله علیہ وسلم کی عبادت کرتا ہے سن رکھے انحضرت صلی الله علیہ وسلم کا وصال ہو گیا اور جو الله کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ الله تعالی شانہ کی ذات ھمیشہ زندگی والی ہے جسے موت نہیں۔" سیدنا عمر رضی الله تعالی عنہ کے ہاتھ سے تلوار گر گيی۔۔۔ عمر رضی الله تعالی عنہ فرماتے ہیں: پھر میں کويی تنہايی کی جگہ تلاش کرنے لگا جہاں اکیلا بیٹھ کر رووں۔۔۔ انحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی تدفین کر دی گيی۔۔۔ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: "تم نے کیسے گوارا کر لیا کہ نبی علیہ السلام کے چہرہ انور پر مٹی ڈالو۔۔۔؟" پھر کہنے لگیں: "يا ابتاه، اجاب ربا دعاه، يا ابتاه، جنة الفردوس ماواه، يا ابتاه، الى جبريل ننعاه." (ہايے میرے پیارے بابا جان، کہ اپنے رب کے بلاوے پر چل دیے، ہايے میرے پیارے بابا جان، کہ جنت الفردوس میں اپنے ٹھکانے کو پہنچ گيے، ہايے میرے پیارے بابا جان، کہ ہم جبریل کو ان کے انے کی خبر دیتے ہیں۔) اللھم صل علی محمد کما تحب وترضا۔ میں نے اج تک اس سے اچھا پیغا م کبھی پوسٹ نہیں کیا۔اسلے اپ سے گزارش کہ اپ اسے پورا سکون و اطمینان کے ساتھ پڑھے۔انشاء اللہ ، اپکا ایمان تازہ ہوجاےگا

City: Abbottabad
Star sign: Not set
Gender: Male
Married: No
Age: 12
Joined: 6 years, 10 months ago
Popularity:
Total likes: 208
Followers: 18 verified followers
5 unverified followers