Intro:💓💓💓
صحابہ کرام اور امہات المومنین رضوان اللہ علیہم اجمعین سے محبت اور ان کا دفاع ضروری کیوں؟
نوٹ : صحابہ رضوان اللہ تعالی علیھم اجمعین سے محبت کرنے والے ضرور پڑھیں اور شیير کریں،کاپی بھی کرسکتے ہیں۔۔۔
#قسط_نمبر2 (اخری قسط)
بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ والصلاۃ والسلام علی نبینا وقدوتنا محمد بن عبد اللہ صلی اللہ علیہ وعلی الہ وصحبہ وسلم،امابعد
سنت سے (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا مقام ومرتبہ):
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولﷺ نے فرمایا:
(لا تسبوا اصحابي لا تسبوا اصحابي فوالذي نفسي بيده لو ان احدكم انفق مثل احد ذهبا ما ادرك مد احدهم ولا نصيفه).
’’میرے صحابہ کو برا مت کہو،میرے صحابہ کو برامت کہو، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جا ن ہے اگر تم میں سے کويی شخص احد پہاڑ کے برابر سونا( اللہ کی راہ میں) خرچ کرے، تو وہ ان کے مد(سیربھر) یا ادھے مد کے برابر بھی نہیں ہوسکتا‘‘۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
اور صحیحین (بخاری ومسلم) میں عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا:
(خیر الناس قرنی،ثم الذین یلونھم، ثم الذین یلونھم)
’’بہترین لوگ میرے زمانے والے ہیں،پھراس کے بعد کے زمانے والے، پھر اس کے بعد کے زمانے والے‘‘۔
اور ابوبردہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے فرمایا:
(النجوم امنة للسماء فاذا ذهبت النجوم اتى السماء ما توعد وانا امنة لاصحابي فاذا ذهبت اتى اصحابي ما يوعدون واصحابي امنة لامتي فاذا ذهب اصحابي اتى امتي ما يوعدون )
’’ستارے اسمان کے محافظ(بچاو) ہیں،جب ستارے مٹ جايیں گے تو اسمان پربھی جس بات کا وعدہ ہے وہ اجايے گی(یعنی قیامت اجايے گی اور اسمان بھی پھٹ کرخراب ہوجايے گا) ،اور میں اپنے اصحاب کا محافظ (بچاو) ہوں،جب میں چلاجاوں گا تو میرے اصحاب پربھی وہ وقت اجايے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی فتنہ اور فساد اور لڑايیاں)،اور میرے اصحاب میری امت کے محافظ(بچاو)ہیں،جب اصحاب چلے جايیں گے تو میری امت پر وہ وقت اجايے گا جس کا وعدہ ہے (یعنی اختلاف وانتشار وغیرہ)‘‘۔(اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے)۔
عبد اللہ بن مغفل مزنی سے روایت ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایاالله الله في اصحابي ، لا تتخذوهم غرضا بعدي ، فمن احبهم فبحبي احبهم ، ومن ابغضهم ، فببغضي ابغضهم ، ومن اذاهم فقد اذاني ، ومن اذاني فقد اذى الله عزوجل ، ومن اذى الله يوشك ان ياخذه)
’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو! میرے بعد ان کو(طعن وتشنیع کا )نشانہ نہ بنانا(یاد رکھو) جس نے ان سے محبت کی،پس میری محبت کی وجہ سےاس نے ان سے محبت کی۔جس نے ان سے بغض رکھا پس میرے بغض کی وجہ سے ان سے بغض رکھا، اور جس نے ان کو اذیت دی پس اس نے مجھے اذیت دی ،جس نے مجھے اذیت دی اس نے اللہ کو اذیت دی،اورجس نے اللہ کواذیت دی پس قریب ہے کہ وہ اس کو اپنی گرفت میں لے لے‘‘(اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے)۔
اور نبیﷺ نے فرمایا:
(لا تسبوا اصحابي فمن سبهم فعليه لعنة الله والملايكة والناس اجمعين، لا يقبل الله منه صرفا ولا عدلا)
’’میرے صحابہ کو گالی مت دو،جس نے انہیں گالی دی اس پر اللہ کی،فرشتوں کی اور سارے لوگوں کی لعنت ہو، اللہ ایسے شخص سے نہ تو فرض قبول کرے گا نہ تو نفل‘‘[اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)([1])
اور صحیحین (بخاری ومسلم) میں براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ نے انصار صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا:
(لا يحبهم الا مومن ،ولا يبغضهم الا منافق، فمن احبهم احبه الله ،ومن ابغضهم ابغضه الله)
’’انصار سے صرف مومن ہی محبت رکھے گا اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھے گا،پس جو شخص ان سے محبت کرے گا اس سے اللہ محبت کرے گا اور جوان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا‘‘۔
اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:
(ان الله نظر في قلوب العباد ،فوجد قلب محمد صلى الله عليه واله وسلم خير قلوب العباد، فاصطفاه لنفسه، فابتعثه برسالته ، ثم نظر في قلوب العباد بعد قلب محمد صلى الله عليه واله وسلم فوجد قلوب اصحابه خير قلوب العباد، فجعلهم وزراء نبيه يقاتلون على دينه ،فما راى المسلمون حسنا فهو عند الله حسن ، وما راوا سييا فهو عند الله سيء).
’’اللہ تعالی نے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو ان میں محمد(ﷺ) کے دل کو سب سے بہترپایا،اس لیے انہیں اپنے لیے چن لیا اور انہیں منصب رسالت سے سرفراز کیا، اس کے بعد پھر اللہ تعالی نے اپنے بندوں کے دلوں میں دیکھا تو صحابہ کرام(رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے دلوں کو سب سے بہتر پایا،اس لیےانہیں نبی کا وزیر بنادیا،جواس کے دین کی خاطر جنگ کرتے ہیں،تو یہ مسلمان[یعنی صحابہ کرام] جس چیزکو اچھا سمجھیں وہ اچھی ہے اور جس چیز کو برا سمجھیں وہ بری ہے‘‘۔(مسند احمدح:۳۴۶۸)۔
اور عبد اللہ بن عمررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
(من كان مستنا فليستن بمن قد مات ، اوليك اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم كانوا خير هذه الامة ، ابرها قلوبا ،واعمقها علما ، واقلها تكلفا ، قوم اختارهم الله لصحبة نبيه صلى الله عليه وسلم ونقل دينه ، فتشبهوا باخلاقهم وطرايقهم فهم اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم ، كانوا على الهدى المستقيم ...الخ)
’’جو شخص راہ اختیار کرنا چاہتا ہے اس پر لازم ہے کہ ان کی راہ پر چلے جو فوت ہوچکے،وہ اصحاب محمد ہیں جو اس امت کے بہترین لوگ تھے،جو دل کے کھرے،علم کے گہرے،تکلف سے پاک،وہ قوم جس کو اللہ نے اپنے نبی کی صحبت اوردین کو منتقل کرنے کے ليے انتخاب کیا،لہذاتم ان کے اخلاق اور طریقوں کی پیروی کرو،پس وہ اصحاب محمدﷺ ہیں جوراہ مستقیم پر گامزن تھے...الخ ‘‘۔(اسی طرح ابونعیم نے اپنی کتاب "الحلیۃ: ۱؍۳۰۵،۳۰۶ "میں ذکرکیا ہے)۔
عقیدہ طحاویہ۲؍۶۸۹،میں قاضی ابن ابی عزالدمشقی صحابہ کرام کے بارے میں فرماتے ہیں :
(ونحب اصحاب رسول الله ولا نفرط في حب احد منهم، ولا نتبرا من احد منهم، ونبغض من يبغضهم، وبغير الخير يذكرهم، ولا نذكرهم الابعفو، وحبهم دين، وايمان، واحسان، وبغضهم كفر،ونفاق،وطغيان)
’’ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے محبت کرتے ہیں اور ان میں سے کسی کی محبت میں غلو نہیں کرتے اور نہ ان میں سے کسی سے براءت ظاہرکرتے ہیں اور ہم ان لوگوں سے بغض رکھتے ہیں جو صحابہ سے بغض رکھتے ہیں ،اور جب بھی ہم صحابہ کا تذکرہ کرتے ہیں خیرکے ساتھ ہی کرتے ہیں ، ان سے محبت رکھنا دین،ایمان اور احسان کی علامت ونشانی ہے اور ان سے بغض رکھنا کفر،نفاق اورسرکشی ہے‘‘۔
تما م صحابہ کرام عادل وثقہ ہیں،اور ان کی عدالت کے بارے میں سوال کرنا جايز نہیں:
امام نووی فرماتے ہیں:
’’صحابہ کرام سب کے سب عادل ہیں، چاہے وہ فتنہ میں مبتلاہويے ہوں یا نہ ہويے ہوں،اور اس چیز پر باوثوق و معتمد علماء کا اجماع ہے‘‘۔(التقریب مع التدریب ص:۲۱۴)
ابن الصلاح فرماتے ہیں:
’’اس بات پر امت کا اتفاق ہے کہ تمام صحابہ کرام،اور ان میں فتنوں میں مبتلاہونے والے عدول ہیں‘‘۔(الحدیث والمحدثون ۱۲۹؍۱۳۰)
خطیب بغدادی نے یہ باب قايم کیا ہے:
’’جو کچھ اللہ اوراس کے رسول کی طرف سے صحابہ کرام کی تعدیل میں ایا ہے ،ان کی (عدالت وثقاہت) کے بارے میں سوال کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے،لیکن ان کے علاوہ (تابعین وغیرہ) میں(عدالت کا تثبت ) واجب ہوگا‘‘۔(الکفایۃ :ص۴۶)۔
صحابہ میں سے کسی ایک کو بھی گالی دینا یا ان کی عزت وشان میں کمی کرنا جايز نہیں:
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے صحابہ کرام کے تيیں واجبات کا تذکرہ کرتے ہويے فرمایا:
’’اہل سنت والجماعت کے اصولوں میں سے اصحاب رسولﷺ کے بارے میں اپنی زبانوں اور دلوں کا محفوظ رکھنا ضروری ہے ،جیسا کہ اللہ تعالی نے اپنے قول میں ان کے بارے میں فرمایا ہے:
﴿والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين امنوا ربنا انك رءوف رحيم ﴾[الحشر:10]
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد ايیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھايیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بے شک تو شفقت ومہربانی کرنے والاہے‘‘[سورہ حشر:۱۰](دیکھیے: شرح العقیدہ الواسطیہ ص۱۸۴)
ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
’’اللہ عزوجل نے اصحاب محمد ﷺ کے ليے بخشش کی دعا کا حکم دیا ،جبکہ وہ جانتا ہے کہ صحابہ کرام اپس میں جنگ کریں گے‘‘(الصارم المسلول لابن تیمیہ ص۵۸۴)۔
ابن عمررضی اللہ عنہما نے فرمایا:
’’محمد(ﷺ) کے اصحاب کو گالی مت دو،کیونکہ ان میں سے کسی ایک صحابی کی گھنٹہ بھر کی عبادت تم میں سے کسی ایک کی ساری زندگی کے عمل سے بہترہے‘‘۔(اس کی سند صحیح ہے،اسے ابن ماجہ نے روایت کیا ہے ،اور ابن ابی عاصم نے اسے اپنی کتاب’’السنۃ‘‘میں ذکر کیا ہے)۔
ام المومنین عايشہ رضی اللہ عنہا سے کہا گیا کہ: لوگ اصحاب رسول ﷺ ،حتی کہ ابوبکر وعمررضی اللہ عنہما کے بارے میں باتیں کرتے ہیں،تو انہوں نے فرمایا:
’’اس پر کیا تعجب کرتے ہو!؟ ان کےعمل (کا سلسلہ) منقطع ہوگیا ہے،لہذا اللہ نے چاہا کہ ان (کے عمل کا)اجروثواب ختم نہ ہو‘‘۔(منہاج السنہ النبویہ۲؍۲۲)
امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’جس نے نبیﷺ کے اصحاب میں سے کسی ایک کو یا ابوبکر یا عمریا عثمان یا علی یا معاویہ یا عمروبن العاص(رضی اللہ عنہم اجمعین) کو گالی دی،پس اگراس نے کہا کہ: یہ لوگ گمراہ اور کافر تھے تواس کا کہنے والا قتل کیا جايے گا ،اور اگر اس نے انہیں اس (کفروگمراہی) کے علاوہ لوگوں کی گالیوں کی طرح گالی دی تو سخت سزا دیا جايے گا‘‘۔ (الشفا في حقوق المصطفی قاضی عیاض ،ص۲۹۹)۔
ابوبکرمروزی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:
’’میں نے ابوعبداللہ (احمد بن حنبل) سے پوچھا: ابوبکر،عمراور عايشہ کو گالیاں دینے والے کے بارے میں اپ کا کیاخیال ہے؟ فرمایا: ’’میں نہیں سمجھتا کہ وہ اسلام میں (باقی) ہے‘‘۔(السنہ للخلال ۳؍۴۹۳)
ابوزرعہ رازی نے فرمایا:
’’جب تو کسی شخص کو اصحاب رسولﷺ میں سے کسی کی تنقیص بیان کرتا دیکھے توجان لے کہ وہ ملحد (بےدین)ہے‘‘(الکفایہ في علم الروایہ،ص۹۷)۔
امام احمد بن حنبل نے فرمایا:
’’جب تم کسی ادمی کو اصحاب رسولﷺ کی برايی کرتا دیکھو تواسلام کے بارے میں اسے متہم قراردو‘‘۔(شرح اصول اعتقاد اھل السنۃ والجماعۃ للالكايي ۷؍۱۲۵۲)
صحابہ کرام کے مابین رونما ہونے والے اختلافات سے خاموشی اختیارکرنا ،صحابہ کے حقوق میں سے ہے:
اہل سنت والجماعت کا یہ مذہب ہے کہ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے باہمی اختلافات کے بارے میں خاموشی اختیار کی جايے،کیونکہ (ان میں سے) درستگی پرپہچنے والے کے ليے دوگنا اجرہے،اور بطور اجتہاد غلطی ہوجانے پر ایک اجرہے۔
اے مسلمان! یا د رکھ بروز قیامت اللہ تعالی اپ سے اپ کے عمل کے بارے میں پوچھے گا:
﴿كل نفس بما كسبت رهينة﴾[المدثر:38]
’’ہر شخص اپنے اعمال کے بدلے میں گروی ہے‘‘[سورہ مدثر:۳۸]
اور جولوگ گزرگيے ہیں ان کے عمل کے بارے میں تم سے ہرگز نہیں سوال کیا جايے گا،اور نہ ہی تم سے پوچھا جايے گا کہ کون حق ودرستگی پرتھا اور کون غلطی پر!! جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿تلك امة قد خلت لها ما كسبت ولكم ما كسبتم ولا تسالون عما كانوا يعملون﴾[البقرة:134]
’’یہ جماعت تو گزر چکی، جو انہوں نے کیا وه ان کے ليے ہے اور جو تم کرو گے تمہارے ليے ہے۔ ان کے اعمال کے بارے میں تم نہیں پوچھے جاو گے‘‘۔
یہ ہیں عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اللہ علیہ جب ان سے علی ومعاویہ رضی اللہ عنہما کے درمیان ہونے والی لڑايی کے بارے میں پوچھا گیا جیسا کہ علامہ قرطبی کی(احکام القران ۱۶؍۱۲۲) میں ایا ہے تو انہوں نے فرمایا:
’’اس خون سے اللہ نے میرے ہاتھ کو پاک رکھا ہے تو کیا میں اپنی زبان کو پاک نہ رکھوں؟‘‘۔
پھر اپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: ’’اصحاب رسول کی مثال انکھوں کی طرح ہے،اور انکھوں کا علاج ان کو نہ چھونا ہے‘‘۔۱.ھ
اور امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ سے پوچھا گیا جیسا کہ (کتا ب السنہ للخلال ۲؍۴۶۰) میں ایا ہے:
کہ علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کے باہمی اختلافات کےبارے میں اپ کی کیا رايے ہے؟ تو انہوں نے فرمایا:
’’میں ان کے بارے میں اچھا ہی کہوں گا اللہ ان سب پر رحم فرمايے‘‘۔
اور یہ (بات) اہل سنت کے (بعض) علماء کی طرف سے صحابہ کے مابین ہونے والے اختلافات کے بارے میں اپنی تصنیفات میں اظہار خیال کرنے اور ان کی صحیح توجیہ پیش کرنے اور ان کے تيیں کج رو لوگوں کے شبہات کے ازالہ کرنے سے متصادم نہیں ہے۔
امہات المومنین رضوان اللہ علیہن کو گالیاں دینا یا ان کی شان میں کمی کرنا کیسا ہے!؟
بلا شبہ نبیﷺ کی بیویوں پرلعنت کرنا،انہیں طعن وتشنیع کرنا بہت بڑی جرح ہے اور گناہ کبیرہ ہے،اللہ تعالی کا فرمان ہے:
﴿ان الذين يوذون اللـه ورسوله لعنهم اللـه في الدنيا والاخرة واعد لهم عذابا مهينا﴾[ الاحزاب:57]
’’جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کو ایذا دیتے ہیں ان پر دنیا اور اخرت میں اللہ کی پھٹکار ہے اور ان کے ليے نہایت رسوا کن عذاب ہے‘‘۔[سورہ احزاب:۵۷]
اورعايشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں نبیﷺ نے فرمایا ہے:
(لا توذيني في عايشة)
’’عايشہ۔ رضی اللہ عنہا ۔کے بارے میں مجھے تکلیف نہ دو‘‘(اسے بخاری ومسلم نے روایت کیا ہے)۔
اور جس نے نبیﷺ کی بیویوں کو گالیاں دیں اس کے بارے میں قاضی ابویعلی کہتے ہیں:
’’جس نے عايشہ ۔رضی اللہ عنہا۔ پر اس چیز کی تہمت لگايی جس سے اللہ تعالی نے انہیں بری قراردیا ہے،تواس نے بلاخلاف کفرکیا ،اور اس بات پر کيی علماء نے اجماع نقل کیا ہے،ا ور بہت سے ايمہ کرام نے اس حکم کی وضاحت فرمايی ہے‘‘۔ (دیکھیے: الصارم المسلول علی شاتم الرسول ،ص۵۶۵،۵۶۶)
قاضی عیاض نے امام مالک رحمۃ اللہ علیہ سے ذکر کیا کہ انہوں نے فرمایا:
’’جس نے عايشہ رضی اللہ عنہا کو گالی دی اسے قتل کردیا جايے،کہا گیا کیوں؟ فرمایا: جس نے ان پر تہمت لگايی اس نے قران کریم کی مخالفت کی‘‘۔
اور ابن شعبان نے امام مالک سے نقل کیا: یہ اس ليے کیونکہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿يعظكم اللـه ان تعودوا لمثله ابدا ان كنتم مومنين﴾[النور:17]
’’اللہ تعالی تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ پھر کبھی بھی ایسا کام نہ کرنا اگر تم سچے مومن ہو‘‘[سورہ نور:۱۷]،پس جس نے ایسا کیا اس نے کفرکیا‘‘۔ا.ھ(دیکھیے: الشفا في حقوق المصطفی ،ص۲۹۹)۔
یہ،اور ہر مسلمان(اس بات کو بخوبی) جان لے کہ:
صحبت کی فضیلت ان تمام صحابہ کرام کے ليے ثابت ہے جو اہل سنت کے نزدیک متفقہ طور پر کيے گيے صحابی کی تعریف کے ضمن میں داخل ہويے۔
اور یہ بدترین جہالت میں سے ہے جسے معاصرین اہل بدعت فروغ دے رہے کہ وہ صحابہ کے مفہوم کو ایک خاص گروہ یا ٹولی کے ساتھ محصور کررہے ہیں، اور یہ صحابہ سے حسد وبغض رکھنے والے خبیث رافضہ کی کاوش ہے جو بہت سارے صحابہ کرام کو صحابی کی تعریف سے نکالنا چاہتے ہیں۔
شیخ محدث سلیمان العلوان اپنی کتاب( الاستنفار للذب عن الصحابہ الاخیار،ص۲۰) میں فرماتے ہیں:
’’بعض خواہش پرستوں کا یہ گمان ہے کہ صرف مہاجرین وانصار کے ليے ہی صحبت(صحابی ہونے کا وصف) صحیح ہوگا ،اور اس وقت ان کے بعد انے والوں کی عدالت اسی چیز کے ذریعہ ثابت ہوگی جس سے ان کے علاوہ تابعین وتبع تابعین کی عدالت ثابت ہوتی ہے، اور یہ (خیال) غلط ہے، کیونکہ اسے اہل سنت میں سے کسی نے نہیں کہا ہے‘‘۔ ا.ھ۔
اسی طرح معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ سے اس دلیل کی بنیاد پرحسد کرنا یا انہیں ہدف تنقید بنانا کہ انہوں نے علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے جنگ کی،یا فتح مکہ کے سال اسلام لايے ،یا وہ جنگ حنین کے بعد مرتد ہوگيے درست وجايزنہیں ہے، اور نہ ہی اہل علم میں سے کسی نے یہ بات ذکر کی ہے کہ معاویہ ۔رضی اللہ عنہ۔جنگ حنین کے بعد مرتد ہوگيے تھے،کیونکہ معاویہ بن ابی سفیان ۔رضی اللہ عنہ۔کی فضیلت ،اور ان کے سچے اسلام اور ان کی امانت پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے، اور معاویہ رضی اللہ عنہ غزوہ حنین میں شریک رہے ہیں، اور اللہ تعالی نے باقی صحابہ کے ساتھ ان کا تزکیہ فرمایا ہے، ارشاد باری تعالی ہے:
﴿لقد نصركم اللـه في مواطن كثيرة ويوم حنين اذ اعجبتكم كثرتكم فلم تغن عنكم شييا وضاقت عليكم الارض بما رحبت ثم وليتم مدبرين ثم انزل اللـه سكينته على رسوله وعلى المومنين وانزل جنودا لم تروها وعذب الذين كفروا وذلك جزاء الكافرين﴾[التوبة:25-26]
’’یقینا اللہ تعالی نے بہت سے میدانوں میں تمہیں فتح دی ہے اور حنین کی لڑايی والے دن بھی جب کہ تمہیں اپنی کثرت پر ناز ہوگیا تھا، لیکن اس نے تمہیں کويی فايده نہ دیا بلکہ زمین باوجود اپنی کشادگی کے تم پر تنگ ہوگيی پھر تم پیٹھ پھیر کر مڑ گيےپھر اللہ نے اپنی طرف کی تسکین اپنے نبی پر اور مومنوں پر اتاری اور اپنے وه لشکر بھیجے جنہیں تم دیکھ نہیں رہے تھے اور کافروں کو پوری سزا دی۔ ان کفار کا یہی بدلہ تھا ‘‘۔[سورہ توبہ:۲۵۔۲۶]
اور معاویہ رضی اللہ عنہ (خوش نصیب) مومنین میں سے ایک ہیں کہ جن پر اللہ تعالی نے سکینت نازل فرمايی ہے ،تو وہ سکینت الہی کے نزول کے بعد کیسے (دین سے) مرتد ہوسکتے ہیں؟۔
اور اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿لا يستوي منكم من انفق من قبل الفتح وقاتل اولـيك اعظم درجة من الذين انفقوا من بعد وقاتلوا وكلا وعد اللـه الحسنى واللـه بما تعملون خبير﴾[الحشر:10]
’’تم میں سے جن لوگوں نے فتح سے پہلے فی سبیل اللہ دیا ہے اور قتال کیا ہے وه (دوسروں کے) برابر نہیں، بلکہ ان سے بہت بڑے درجے کے ہیں جنہوں نے فتح کے بعد خیراتیں دیں اور جہاد کیے۔ ہاں بھلايی کا وعده تو اللہ تعالی کاان سب سے ہے جو کچھ تم کر رہے ہو اس سے اللہ خبردار ہے‘‘۔[سورہ حدید:۱۰]
اور معاویہ رضی اللہ عنہ ان (خوش نصیب) لوگوں میں سے ایک ہیں جن سے اللہ تعالی نے جنت کا وعدہ کیا ہے، کیونکہ انہوں نے حنین وطايف کے غزوہ میں مال خرچ کیا ہے اور ان میں لڑايی کی ہے۔
عبدالرحمن بن ابی عمیرہ کہتے ہیں کہ رسول ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایااللهم اجعله هاديا مهديا واهد به ) قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.
’’اے اللہ! اسے ہدایت کرنے والا اور ہدایت یافتہ بنا اور اس کے ذریعہ (لوگوں کو)ہدایت دے‘‘۔
(امام ترمذی کہتے ہیں: یہ حدیث حسن غریب ہے)[ البتہ علامہ البانی نے اسے مشکاۃ رقم (۶۲۳) میں صحیح قرار دیا ہے ۔ م۔ر ]
اور کتاب (البدایہ والنہایہ لابن کثیر۸؍۱۳۴) میں ایا ہے کہ عمربن خطاب رضی اللہ عنہ نے جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو شام کا گورنر مقرر کیا تو فرمایا:
’’معاویہ رضی اللہ عنہ کو صرف خیر سے یاد کیا کرو‘‘۔
علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ جب جنگ صفین سے واپس ايے تو فرمایا:
’’لوگو! معاویہ کی گورنر ی کو ناپسند مت کرو۔اگرتم نے انہیں کھو دیا تو تم دیکھو گے کہ سر اپنے شانوں سے اس طرح کٹ کٹ کرگریں گےجیسے حنظل (اندراين ) کا پھل اپنے درخت سے ٹوٹ ٹوٹ کر گرتا ہے‘‘۔(دیکھيے: البدایہ والنہایہ لابن کثیر،۸؍۱۳۴)
اور عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا ، کیا اپ جانتے ہیں کہ امیر المومنین معاویہ رضی اللہ عنہ صرف ایک ہی وتر پڑھتے ہیں؟ تو انہوں نے فرمایا: ’’وہ فقیہ ہیں‘‘۔(صحیح بخاری، کتاب فضايل صحابہ،باب ذکر معاویہ)۔
اور(کتاب السنۃ للخلال ۱؍۴۴۴) میں امام زہری رحمۃ اللہ علیہ سے ایا ہے کہ: ’’معاویہ رضی اللہ عنہ کيی سال عمربن خطاب رضی اللہ عنہ کی سیرت پر عمل پیرا رہے لیکن وہ ان میں کويی بھی عیب نہ پايے‘‘۔
ابن قدامہ المقدسی اپنی کتاب(لمعۃ الاعتقاد الہادی الی سبیل الرشاد،ص۳۳) میں کہتے ہیں کہ:
’’معاویہ ۔رضی اللہ عنہ۔ مومنوں کے ماموں،وحی الہی کے کاتب اور مسلمانوں کے خلفاء میں سے ایک خلیفہ تھے اللہ ان سب سے راضی ہو‘‘۔
محدث شیخ سلیمان العلوان اپنی کتاب(الاستنفارللذب عن الصحابۃ الاخیار) میں معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کے بارے میں رقم طراز ہیں:
’’جوشخص ان کے ایمان کی شہادت دینے کے بعد انہیں منافق سے متصف کرتا ہے وہ ان پر بہت بڑا بہتان لگاتا ہے اور واضح گناہ کا مرتکب ہوتاہے، ایسے شخص کو توبہ کا حکم دیا جايے گا،اگروہ توبہ کرلیتا ہے اور اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لیتا ہے تو ٹھیک ہے ورنہ حاکم وقت پر علماء کے صحیح قول کے مطابق اس کا قتل کرنا واجب ہے‘‘۔۱ھ.
اور ربیع بن نافع حلبی(ت ۲۴۱ھ) کہتے ہیں:
’’اصحاب محمد ﷺ کے ليے معاویہ رضی اللہ عنہ ایک پردے کی حیثیت سے تھے ،پس جب کويی اس پردہ کو کھول دیتا ہے تو ماورايے پردہ کے متعلق وہ جری ہوجاتا ہے‘‘۔(دیکھیے: البدایہ والنہایہ ۸؍۱۳۹)
رسول اکرم ﷺ کے اصحاب اور اپ کی ازواج مطہرات سے محبت کرنے والے مسلمان بھايی ،اللہ تعالی کے اس فرمان کو یا د کر:
﴿والذين جاءوا من بعدهم يقولون ربنا اغفر لنا ولاخواننا الذين سبقونا بالايمان ولا تجعل في قلوبنا غلا للذين امنوا ربنا انك رءوف رحيم﴾[الحشر:10]
’’اور (ان کے لیے) جو ان کے بعد ايیں جو کہیں گے کہ اے ہمارے پروردگار ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھايیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت ومہربانی کرنے والا ہے‘‘[سورہ حشر:۱۰]
پس تو ایسے ہی بننے کی کوشش کراور جن لوگوں کو اللہ تعالی نے دنیا میں رسول اکرمﷺ کی صحبت اور جنت میں اپﷺ کی رفاقت کا شرف بخشاہے تو بھی ان کے ليے رضی اللہ عنہم اور رحمہم اللہ کے(دعايیہ کلمات) کہتے رہ، اور ان گمراہ لوگوں کے راستے پرچلنے سے اجتناب کر،جورب العالمین کی سیدہی راہ اور رسول اکرمﷺ کے اسوہ حسنہ کی مخالفت کرتے ہیں۔
اے مسلمان بھايی!
اس بات کو اچھی طرح جان لے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور امہات المومنین رضی اللہ عنہن اسان(دین) حنیف پر کار بند تھے،اور وہ اپنے سینوں میں صرف وفا،بھلايی اور خیرخواہی کے سوا کچھ نہیں رکھتے تھے:’’ان سے صرف مومن ہی محبت کرتے ہیں ،اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھتے ہیں، جوان سے محبت کرے گا اللہ اس سے محبت کرے گا،اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا‘‘( مصنف ابن ابی شیبہ۷؍۵۴۱)۔
اور درود وسلام ہو نبیﷺ پر،ان کے نیک صحابہ پر ،ان کی ازواج مطہرات پر،اور قیامت تک ان سب کی راہ پر چلنے والوں پر۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ💕💕💕
City:AbbottabadStar sign:Not setGender:MaleMarried:
No
Age:20Joined:
7 years, 7 months ago
Popularity:
Total likes:
13598
Followers:49 verified followers
3 unverified followers
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain