سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں
بہت مدت کے بعد کل رات۔۔۔۔۔۔،، کتاب ماضی کو ہم نے کھولا؛؛ بہت سے چہرے نظر میں اترے،، بہت سے ناموں پہ دل پسیجا؛؛ اک ایسا صفحہ بھی اس میں آیا،، کہ جس کا عنوان صرف " تم" تھے؛ کچھ اور آنسوں پھر اس پہ ٹپکے،، پھر اس سے آگے ہم پڑھ نہ پائے؛؛ کتاب ماضی کو بند کر کے،، تمہاری یادوں میں کھو گئے ہم؛؛ اگر "تم " ملتے تو کیسا لگتا،، انہی خیالوں میں سو گئے ہم!..... .🥀
اپنے گھر کے , در و دیوار سے , ڈر لگتا ہے گھر کے باہر , تیرے گلزار سے , ڈر لگتا ھے سارے تبدیل ہوئے , مہر و وفا کے دستور چاہنے والوں کے , اب پیار سے ڈر لگتا ھے تھی کسی دور علیلوں کی عیادت واجب لیکن اب , قربتِ بیمار سے , ڈر لگتا ھے جنکی آمد کو سمجھتے تھے خدا کی رحمت ایسے مہمانوں کے , آثار سے , ڈر لگتا ھے راہ چلتے ہوۓ کوئی نہ ملا لے ہاتھ اب تب ہی ہر دوست اور یار سے ڈر لگتا ہے جو گلے مل لے میری جان کا دشمن ٹھہرے اب , ہر اک , یار ِ وفادار سے , ڈر لگتا ھے ایک نادیدہ سی ہستی نے جھنجوڑا ایسے خلق کو گنبد و مینار , سے ڈر لگتا ھے