غم کی جاگیر وراثت میں ملی مجھ کو
اپنی جاگیر میں رہتا ہوں نوابوں کی طرح
حیرت تو یہ ہے کہ تو بھی کمسن تو نہیں ہے
پھر کیوں میں تیرے ہاتھوں میں کھلونوں کی طرح ہوں
نہ ہاتھ تھام سکے نہ پا سکے دامن
بہت قریب سے اٹھ کر بچھڑ گیا کوئی
وہ اس قدر اپنی ذات میں الجھا رہا محسن
کہ وہ کس کس کو بھول گیا اسے خبر نہ ہوئی
لوگ شامل تھے اور بھی لیکن
دل تیری کوششوں سے ٹوٹا ہے
مل جائے گا ہم کو بھی کوئی ٹوٹ کے چاہنے والا
اب شہر کا شہرتو بے وفا نہیں ہوتا
ٹوٹ کر بھی دھڑکتا رہتاہے
دل سا کوئی وفادار نہیں دیکھا
دل تھا اکیلا اورغم تھے ہزار
افسوس اکیلے کو مل کے ہزاروں نے لوٹا
مجھے معلوم ہے تم خوش بہت ہو اس جدائی سے
اب خیال رکھنا اپنا ، تمہیں تم جیسا نہ مل جائے
بس اک بار درد دل کو ختم کردو
وعدہ کرتے ہیں پھر کبھی محبت نہیں کرینگے
غم بھی دئیے تو یوں کہ نہ واپس لئے کبھی
ان کے ہماری ذات پہ احسان ہی رہے
درد اٹهتا ہے تو تصور میں آجاتے ہیں وہ
خدا میرے درد کی عمر دراز کرے
کرو پھر سے کوئی وعدہ کبھی نہ پھر بچھڑنے کا
تمہیں کیا فرق پڑتا ہے ، بچھڑنے میں مکرنے میں
عشق وہ کھیل نہیں جو چھوٹے دل والے کھیلیں
روح تک کانپ جاتی ہے صدمے سہتے سہتے
تیری تمنا ، تیرا انتظار اور تنہا سا میں
تھک کر مسکرا دیا جب رو نہیں پایا
کون خریدے گا ہیروں کے دام تیرے آنسو
وہ جو درد کا تاجر تھا شہر چھوڑ گیا
نیند آتی نہ تھی جس کو میری صورت دیکھے بغیر
آج وہ لوگوں سے کہتا ہے یہ شخص دیکھا سا لگتا ہے
رات دروازے پہ کتنی دستکوں کے نشان تھے
پھر وہی پاگل ہَوا تھی ، پھر مجھ سے دھوکہ ہوا
قابل دید آنکھیں اور ان آنکھوں سے
خود ہی پامال ہوئے خود ہی تماشا دیکھا
گلے ملتے ہیں جب کبھی دو بچھڑے ہوئے ساتھی
ہم بے سہاروں کو بڑی تکلیف ہوتی ہے
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain