جتنی چاہت سے تجھ کو دیکھا ہے
اتنی چاہت سے کچھ نہیں دیکھا
اپنی آنکھوں میں دیکھ لینے دو
میں نے مدت سے کچھ نہیں دیکھا
اگـر يہ آنکھیں آخرى لمحے تمہیں نہ ديکھ سکیں تب بھى يہ يقين رکھنا ان میں آخرى عکس تمہارا ہى ہوگا
آنسو آہیں تنہائی ویرانی اور غم مسلسل
اک ذرا سا عشق ہوا تھا کیا کیا وراثت میں دے گیا
اگر عشق کرنا ہے تو آداب وفا بھی سیکھو
یہ فارغ وقت کی بے قراری محبت نہیں ہوتی
خلوص عشق کبھی رائیگاں نہیں جاتا
میں کیسے مان لوں تجھے میرا خیال نہیں آتا
بہنوں والے دوسروں کی بہنوں سے نہیں کھیلتے
لوگ برے لوگوں سے دھوکہ کھاتے ہیں
اور اچھے لوگوں سے بدلا لیتے ہیں
میری محبت کا یہی ثبوت ہے
تجھے بے وفا کہے کوئی دل کو گوارہ یہ اب بھی نہیں
بڑی ٹھوکریں کھا کر سمجھدار ہوۓ ہیں
اب ہم دل کی باتوں پر دھیان نہیں دیتے
دو چار دن کی دوستی ہم کو نہیں قبول
نفرت کرو یا پیار کرو حشر تک کرو
ایسے نہ کہو کے قسمت کی بات ہے
میری تنہائی میں کچھ ہاتھ تمہارا بھی ہے
چاہت کے چراغوں میں یہی عجیب بات ہے
مدھم تو ہو جاتے ہیں مگر بجھتے نہیں