وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے وہ بھی چڑھتے ھوئے سورج کے پُجاری نکلے سب کے ہونٹوں پہ میرے بعد ہیں باتیں میری میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے اک جنازہ اُٹھا مقتل سے اک شان کے ساتھ جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے بہتے اشکوں سے شعلوں کی سبیلیں پھوٹیں چُبتے زخموں سے فنِ نقش و نگاری نکلے ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے عکس کوئی ھو خدوخال تمہارا دیکھوں بزم کوئی ھو مگر بات تمہاری نکلے اپنے دشمن سے میں بے وجہ خفا تھا دانیال میرے قاتل تو میرے اپنے حواری نکلے
سمجھے کون ہمارے دکھ دکھ اور اتنے سارے دکھ شب بھر باتیں کرتے ہیں جگنو ، چاند ، ستارے ، دکھ سینے سے لگ جاتے ہیں رات ، تھکن کے مارے دکھ ہم سے پہلے پھرتے تھے دہر میں مارے مارے دکھ 🏵️
قلم ، کاغذ ، تخیل اور کتابیں بیچ سکتی ہوں پڑی مشکل تو گھر کی ساری چیزیں بیچ سکتی ہوں مجھے قسطوں میں اپنی زندگی نیلام کرنی ہے میں بھر بھر کے غباروں میں یہ سانسیں بیچ سکتی ہوں پرندوں سے مرا جھگڑا ہے ، ان کے گھر اجاڑوں گی اگر یہ پیڑ میرا ہے میں شاخیں بیچ سکتی ہوں مرے کاسے میں بھی خیرات پڑ جائے محبت کی سنو درویش کیا میں بھی دعائیں بیچ سکتی ہوں ؟ تمہارے بعد اب کس کو بصارت کی طلب ہوگی ؟ مناسب دام مل جائیں تو آنکھیں بیچ سکتی ہوں بتائیں مفتیانِ علم و دانش میرے بچوں پر اگر فاقہ مسلط ہو ، میں غزلیں بیچ سکتی ہوں ؟ کومل جوئیہ
ہٹاؤ ہاتھ آنکھوں سے یہ تم ہو جانتا ہوں میں، تمھیں خوشبو نہیں آہٹ سے بھی پہچانتا ہوں میں... بھٹکتا پھر رہا تھا غم لپٹ کر مجھ سے یہ بولا، کہاں جاؤں تجھی کو شہر بھر میں جانتا ہوں میں..