ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس بولتا جہل ہے بد نام خرد ہوتی ہے کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
آنکھ میں پانی رکھو، ہونٹوں پہ چنگاری رکھو زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو
کوئی بُوند لاؤ خرابات سے مجھے آگ لگتی ہے برسات سے میری بات اِتنی دل آزار تھی؟ خفا ہوگئے تم میری بات سے تجھے اس لئے میں نہیں دیکھتا مجھےعشق ہے کچھ تیری ذات سے جوانی خِرد سے درخشاں نہیں جوانی مُنّور ہے جذبات سے مُغّنی ! میرے حال پر رحم کھا مجھے پُھونک دے نغمات سے مجھے دو جہاں کی خوشی مل گئی تیری اتفاقی ملاقات سے عدم جام صہبا اٹھاؤ ذرا سویرا نکل جائے گا رات سے عبدالحمید عدم
یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں انہیں پانے کی دھن میں ہرتمنا بھول جاتے ہیں تم اپنی مہکی مہکی زلف کے پیچوں کو کم کرلو مسافر ان میں گِھر کر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں یہ آنکھیں جب ہمیں اپنی پناہوں میں بلاتی ہیں ہمیں اپنی قسم ہم ہر سہارا بھول جاتے ہیں تمہارے نرم و نازک ہونٹ جس دم مسکراتے ہیں بہاریں جھینپتی ہیں، پھول کِھلنا بھول جاتے ہیں بہت کچھ تم سے کہنے کی تمنا دل میں رکھتے ہیں مگر جب سامنے آتے ہو، کہنا بھول جاتے ہیں محبت میں زباں چپ ہو تو آنکھیں بات کرتی ہیں یہ کہہ دیتی ہیں وہ باتیں، جو کہنا بھول جاتے ہیں