Damadam.pk
دانیال's posts | Damadam

دانیال's posts:

دانیال
 

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے
شعبدہ گر بھی پہنتے ہیں خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بد نام خرد ہوتی ہے
کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعجاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

دانیال
 

بہت ملاوٹ کر چکا خود میں
کاش انسان تھوڑا سا خالص رہتا

دانیال
 

ہم سے کہتے ہیں چمن والے غریبانِ چمن
تم کوئی اچھا سا رکھ لو اپنے ویرانے کا نام

دانیال
 

کُل اثاثہ تھا اِک دِیا لوگو...
اور اَب وہ بھی بُجھ گیا لوگو
― نوشی گیلانی

دانیال
 

کیا پتہ خواب کا عالم ہے کہ بیداری ہے
میرے اعصاب پہ صدیوں کی تھکن طاری ہے

دانیال
 

مِرے مزاج کو بخیہ گَری نہیں آتی
تعلّقات کا دھاگہ اُدھڑتا رھتا ھے

دانیال
 

آنکھ میں پانی رکھو، ہونٹوں پہ چنگاری رکھو
زندہ رہنا ہے تو ترکیبیں بہت ساری رکھو
راہ کے پتھر سے بڑھ کر کچھ نہیں ہیں منزلیں
راستے آواز دیتے ہیں سفر جاری رکھو
ایک ہی ندی کے ہیں یہ دو کنارے دوستو
دوستانہ زندگی سے موت سے یاری رکھو
یہ ضروری ہے کہ آنکھوں کا بھرم قائم رہے
نیند رکھو یا نہ رکھو خواب معیاری رکھو

دانیال
 

جو بھی مِلتا ھے یہ کہتا ھے شفا خانے چلو
تُم نے کیوں درد کو سینے سے لگایا ھُوا ھے

دانیال
 

اپنی نیند پہ حملہ کرنا ہے مجھ کو
میرا دُشمن میرے خواب میں رہتا ہے

دانیال
 

کوئی بُوند لاؤ خرابات سے
مجھے آگ لگتی ہے برسات سے
میری بات اِتنی دل آزار تھی؟
خفا ہوگئے تم میری بات سے
تجھے اس لئے میں نہیں دیکھتا
مجھےعشق ہے کچھ تیری ذات سے
جوانی خِرد سے درخشاں نہیں
جوانی مُنّور ہے جذبات سے
مُغّنی ! میرے حال پر رحم کھا
مجھے پُھونک دے نغمات سے
مجھے دو جہاں کی خوشی مل گئی
تیری اتفاقی ملاقات سے
عدم جام صہبا اٹھاؤ ذرا
سویرا نکل جائے گا رات سے
عبدالحمید عدم

دانیال
 

موت بھی چھین نہیں سکتی یہ دولت مجھ سے
زندگی! میرا اثاثہ مری خود داری ہے

دانیال
 

ابھی کچھ دیر پہلے ہاتھ میں تھا
کہاں پر گِر گیا لمحہ پِھسل کر

دانیال
 

دشت تنہائی میں جینے کا سلیقہ سیکھئے
یہ شکستہ بام و در بھی ہم سفر ہو جائیں گے

دانیال
 

میں کتنا اکیلا ہوں تمہیں کیسے بتاؤں
تنہائی بھی ہو جاتی ہے تنہا میرے اندر۔۔

دانیال
 

یہ آنکھیں دیکھ کر ہم ساری دنیا بھول جاتے ہیں
انہیں پانے کی دھن میں ہرتمنا بھول جاتے ہیں
تم اپنی مہکی مہکی زلف کے پیچوں کو کم کرلو
مسافر ان میں گِھر کر اپنا رستہ بھول جاتے ہیں
یہ آنکھیں جب ہمیں اپنی پناہوں میں بلاتی ہیں
ہمیں اپنی قسم ہم ہر سہارا بھول جاتے ہیں
تمہارے نرم و نازک ہونٹ جس دم مسکراتے ہیں
بہاریں جھینپتی ہیں، پھول کِھلنا بھول جاتے ہیں
بہت کچھ تم سے کہنے کی تمنا دل میں رکھتے ہیں
مگر جب سامنے آتے ہو، کہنا بھول جاتے ہیں
محبت میں زباں چپ ہو تو آنکھیں بات کرتی ہیں
یہ کہہ دیتی ہیں وہ باتیں، جو کہنا بھول جاتے ہیں

دانیال
 

آسماں تھام کے رکھا ہے جو تم نے سر پہ
تھک گئے ہو تو اسے مجھ پہ گرا سکتے ہو
جب کبھی شہر سے گزرو مرے، لازم ملنا
اک تمہی ہو جو مجھے، مجھ سے ملا سکتے ہو۔۔

دانیال
 

جس کو دیکھو وہی دکھی ھے۔
آخر یہ خوشیاں جا کہاں رھیں ھیں؟

دانیال
 

راستے کہیں نہی جاتے
دراصل لوگ بھٹک جاتے ہیں

دانیال
 

بڑے عجیب دنیا کے یہ میلے ہیں
دیکھتی تو بھیڑ ہے پر چلتے سب
اکیلے ہیں.

لیکن گِلہ کیسا؟
د  : لیکن گِلہ کیسا؟ -