بعض لوگوں کے پاس بے پناہ الفاظ اور خیالات کا ذخیرہ ہوتا ہے، لیکن پھر بھی وہ خاموش رہتے ہیں!! کیوں کہ انہیں بحث کرنا نہیں آتا- وہ ہر درد کا جواب خاموش مسکراہٹ، اور معمولی آنسو سے دیتے ہیں!! بظاہر وہ خوش نظر آتے ہے، لیکن درحقیقت وہ زندگی سے لڑ رہے ہوتے ہیں- اور وہ ان رویوں سے لڑ رہے ہوتے ہیں جو ناقابلِ یقین ہوتے ہیں دکھ کی سختیاں چہرے سے تو رخصت ہو جاتی ہیں، لیکن وہ انسان کے اندر اتر کر گوشے گوشے کو ویران کر دیتی ہیں...!🥀
میں نظر سے پی رہا ہوں کہ سماں بدل نہ جائے نہ جھکاؤ تم نگاہیں کہیں رات ڈھل نہ جائے مرے اشک بھی ہیں اس میں یہ شراب اُبل نہ جائے مرا جام چھُونے والے تیرا ہاتھ جل نہ جائے ابھی رات کچھ ہے باقی نہ اٹھا نقاب ساقی تیرا رند گرتے گرتے کہیں پھر سنبھل نہ جائے میری زندگی کے مالک مرے دل پہ ہاتھ رکھ دے تیرے آنے کی خوشی میں میرا دم نکل نہ جائے مجھے پھونکنے سے پہلے میرا دل نکال لینا یہ کسی کی ہے امانت میرے ساتھ جل نہ جائے انور مرزا پوری
یہ دولت بھی لے لو یہ شہرت بھی لے لو بھلے چھین لو مجھ سے میری جوانی مگر مجھ کو لوٹا دو بچپن کا ساون وہ کاغذ کی کشتی وہ بارش کا پانیمحلے کی سب سے پرانی نشانی وہ بڑھیا جسے بچے کہتے تھے نانیوہ نانی کی باتوں میں پریوں کا ڈیرا وہ چہرے کی جھریوں میں صدیوں کا پھیرابھلائے نہیں بھول سکتا ہے کوئی وہ چھوٹی سی راتیں وہ لمبی کہانی کھڑی دھوپ میں اپنے گھر سے نکلنا وہ چڑیاں وہ بلبل وہ تتلی پکڑنا وہ گڑیا کی شادی میں لڑنا جھگڑنا وہ جھولوں سے گرنا وہ گر کے سنبھلنا وہ پیتل کے چھلوں کے پیارے سے تحفے وہ ٹوٹی ہوئی چوڑیوں کی نشانی کبھی ریت کے اونچے ٹیلوں پہ جانا گھروندے بنانا بنا کے مٹانا وہ معصوم چاہت کی تصویر اپنی وہ خوابوں خیالوں کی جاگیر اپنی نہ دنیا کا غم تھا نہ رشتوں کا بندھن بڑی خوبصورت تھی وہ زندگانی