ہر رات تیری یاد کو سینے سے نکالا جیسے کسی مورت کو دفینے سے نکالا اک خواہشِ ناکام کو اس کو چۂ دل سے بدلے تیرے تیور تو قرینے سے نکالا پاؤں تری دہلیز پے رکھنے کے سزاوار تونے جنہیں تکریم کے زینے سے نکالا سکہ نہیں چلتا تری سرکار میں ورنہ کیا کیا نہ ہنر ہم نے خزینے سے نکالا ہم ایسے برے کیا تھے کے نفرت نہ محبت رکھّا نہ کبھی پاس نہ سینے سے نکالا ٹھوکر میں طلب کی رہے ہر عمر میں ہم جان یو ں جیت کے مفہوم کو جینے سے نکالا
عشاق بہت ہیں ترے بیمار بہت ہیں تجھ حسنِ دل آرام کے حق دار بہت ہیں اے سنگ صفت آ کے سرِ بام ذرا دیکھ اک ہم ہی نہیں تیرے طلب گار بہت ہیں بے چَین کئے رکھتی ہے ہر آن یہ دل کو کم بخت محبت کے بھی آزار بہت ہیں مٹی کے کھلونے ہیں ترے ہاتھ میں ہم لوگ اور گِر کے بکھر جانے کے آثار بہت ہیں لکھیں تو کوئی مصرعۂ تر لکھ نہیں پاتے اور غالبِؔ خستہ کے طرفدار بہت ہیں اے ربِ ہنر چشمِ عنایات اِدھر بھی ہر چند کہ ہم تیرے گنہ گار بہت ہیں خاورؔ اُسے پا لینے میں کھو دینے کا ڈر ہے اندیشہ و حسرت کے میاں خار بہت ہیں
"آپ کی یاد آتی رہی رات بھر" چاندنی دل دکھاتی رہی رات بھر گاہ جلتی ہوئی، گاہ بجھتی ہوئی شمعِ غم جھلملاتی رہی رات بھر کوئی خوشبو بدلتی رہی پیرہن کوئی تصویر گاتی رہی رات بھر پھر صبا سایہء شاخِ گُل کے تلے کوئی قِصہ سناتی رہی رات بھر جو نہ آیا اسے کوئی زنجیرِ در ہر صدا پربلاتی رہی رات بھر ایک امید سے دل بہلتا رہا اک تمنا ستاتی رہی رات بھر