حالات ٹھیک کر لوں مدد گار بھی تو ہو دل کو سکون دوستو درکار بھی تو ہو ہونے کو ہو بھی جائیں سبھی زخم مندمل اس جیسا کوئی دوسرا آزار بھی تو ہو کر لیں یقین کیسے محبت پہ پھر سے ہم اس پائے کا مقابل اداکار بھی تو ہو کوشش تمام عمر رہی دوریاں ہوں کم لیکن گرائیں جس کو وہ دیوار بھی تو ہو بے تاب و بے قرار ہیں کتنے مرے لئے یہ دل کسی کے خواب سے بیدار بھی تو ہو بکنے کو آئیں گے ترے کوچے میں سر کے بل لیکن ذرا سی گرمئی بازار بھی تو ہو تجھ سے بگاڑ تو لوں مگر مسئلہ ہے یہ تیرے سوائے میرا کوئی یار بھی تو ہو ایسا نہیں کہ دشت سے اب لوٹنا نہیں تجھ سا حسین کوئی طلب گار بھی تو ہو
طلب عارضی ہے، رسد عارضی ہے یہی سچ ہے پہلا یہی آخری ہے بھروسہ کیا جائے کس آدمی پر کھڑا آئینے میں جو ہے اجنبی ہے اندھیرا جو بڑھنے لگے زندگی میں سمجھ لیجے نزدیک ہی روشنی ہے جو مجھ کو ملی ہے جو میں جی رہا ہوں ذرا دیکھنا کیا یہی زندگی ہے دلیلیں محبت کو درکار ہوں گر تو طے ہے کوئی تیسرا اور بھی ہے
تو تماشا نہ بن بنایا کر خواب دیکھا نہ کر دکھایا کر تجھ سے باہر بھی ایک دنیا ہے خود سے باہر بھی خود کو لایا کر لوگ کھلتے نہیں کناروں پر ان کو طوفاں میں آزمایا کر ایک دن جان مانگ لے گا وہ یوں نہ ہر بات مان جایا کر عام مٹی نہیں ، محبت ہے اس کو ہر چاک پر نہ لایا کر خرچ سارا نہ ہو جا دنیا پر کچھ نہ کچھ خود پہ بھی لگایا کر ہار جانے کا حوصلہ بھی رکھ آخری تیر بھی چلایا کر گھر بنانا ہے تو ضروری ہے گھر سے باہر نہ گھر بنایا کر تو شجر ہے یہی ہے ظرف ترا اپنے دشمن پہ بھی تو سایا کر Aatish
"درد" کو الٹا لکھو یا سیدھا، "درد" ' "درد" ہی ہوتا ہے۔ "درد" کا پہلا "د" نکال دیں تو "رد" بنتا ہے۔ دوسرا "د" نکال دیں تو "در" بنتا ہے۔ جان لیں کسی کے "در" سے جب انسان "رد" کیا جاتا ہے تو انسان کو "درد" ملتا ہے اور یہی "درد" انسان کو اس "در" سے جوڑ دیتا ہے جہاں سے کوئی بھی "رد" نہیں ہوتا!
زرد پتے خشک ٹہنیاں سنبھالنے کا ہنر آتا ہے ہم سے اپنے زخم سلوانے شہر کا شہر آتا ہے ایسا مرہم ہے میرے لفظوں میں مسیحاٸ کا اک نظرِ شوق میں ، یہاں ہر ذوقِ نظر آتا ہے..
برسوں کے انتظار کا انجام لکھ دیا کاغذ پہ شام کاٹ کے پھر شام لکھ دیا بکھری پڑیں تھی ٹوٹ کے کلیاں زمین پر ترتیب دے کے میں نے تیرا نام لکھ دیا تقسیم ہو رہی تھیں خدائی کی نعمتیں اک عشق بچ گیا سو میرے نام لکھ دیا 😒