انسان کہاں ملتے ہیں.......مجھے تلاش ہے انسانوں کی........معلوم نہیں میں کس بستی میں رہتا ہوں........اس طبقے کو کیا کہتے ہیں........سنا ہے میں انسان ہوں....لہٰزا مجھے انسانوں میں ہی جانا ہے
عمر کے دھاگے میں ، جب درد پروئے تھے ہر زخم الگ رکھا ، ہر ٹھیس جدا باندھی ۔۔
تری قربتوں کا نشاط اپنی جگہ مگر وہ جو زخم ہجر کی دین تھا، وہ بھرا نہیں کئی حادثے مرے جسم و جاں پہ گزر گئے مجھے جانے کس کی تھی بد دعا،میں مرا نہیں
کُھلنا غضب ہُوا تیری زُلفِ دراز کا۔۔۔۔ پھانسی گلے میں ڈال کر دُنیا لٹک گئی
چلتی ہی جا رہی ہے__یہ عمر رواں کی ریل،، ہم کو یہیں اترنا ہے______زنجیر کھینچئیے،،
میں سہوں کرب زندگی کب تک رہے آخر تری کمی کب تک
آ گلے لگ کے_______________مر جائیں...!!! کیا رکھا ہے______________________ جینے میں...!!!
علاج یہ ہے کہ مجبور کر دیا جاؤں وگرنہ یوں تو کسی کی نہیں سنی میں نے
کوئی آس نہیں اور احساس نہیں ملا دریا مجھے بجھی پیاس نہیں ایک ہم ہی نہیں جسے دیکھیں یہاں ہر آنکھ ہے نم جانے کب ہونگے کم اس دنیا کے غم
میرے بارے میں اب کوئی پوچھے تو کہنا مر گیا ہے وہ
ﺟﺐ ﺳﮯ ﻭﮦ ﺁﻧﮑﮫ ﮨﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﻢ ﺳﮯ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﮯ ﮨﮯ ﺧﻔﺎ ﮨﮯ ﻣﯿﺨﺎﻧﮧ
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﺟﺐ ﮔﺰﺍﺭﻧﯽ ﮨﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﯾﺎﺭ ﭘﮭﺮ ﮐﯿﺎ برا ﮨﮯ ﻣﯿﺨﺎﻧﮧ
ﮐﺲ ﻃﺮﺡ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﻭﮞ اسے ﻭﺍﻋﻆ ﻣﺸﮑﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﻼ ﮨﮯ ﻣﯿﺨﺎﻧﮧ
خط ہے کسی شرابی کا شاید خط کے اوپر لکھا ہے میخانہ
جانے کب ہونگے کم اس دنیا کے غم جینے والوں پہ سدا ہوئے جرم و خطا
شام کے وقت بیٹھنے کے لیے سب سے اچھی جگہ ہے میخانہ