Damadam.pk
Abeed's posts | Damadam

Abeed's posts:

Abeed
 

مذہب بھلے کوئی ہو پہ رہتا ہے تذکرہ
دنیا نے جس عبید کو تسلیم کر لیا
ع ر ع

Abeed
 

ناکامیوں کا بوجھ ہے اتنا عبید پر
فرصت ملی جو سوچ سے، آرام کر لیا
ع ر ع

Abeed
 

آورد
آئینہ نگار ہی پرکھیں عبید کو
قابل لگے جو آپ کو تو دید کیجیے
زحمت کریں جناب گریباں میں جھانک کر
اپنے عمل کو دیکھ کے تنقید کیجیے
عبید رضا عباس

Abeed
 

ہک صحت صحیح نئیں اتے حوصلے دھ وی، اسی ہاں بس پور سپورے
راء امید علی امید

Abeed
 

کل رات سے طبعیت بہت خراب ہے ـ
نمونیہ اور بخار نہیں چھوڑ رہا ـ
دعاؤں کی التماس ہے

Abeed
 

علی اصغر کا نام آتے ہی
خشک آنکھوں پہ پھر گیا پانی
عبید رضا عباس

Abeed
 

لاکھ کوشش کرو مگر اس نے
گفتگو میں پہل نہیں کرنی ٌ
عبید رضا عباس

Abeed
 

ذہن کوئی سراغ پائے گا
سوچتے سوچتے جہاں پہنچے
ع ر ع

Abeed
 

فی البدیہہ
آنکھ کی دسترس سے دور تھی جو
سوچتی سوچ اس جگہ پہنچی
عبید رضا عباس

Abeed
 

غم کے بندھن میں بندھے ہیں دوستا
منہ خوشی ہم کو لگاتی ہی نہیں
ع ر ع

Abeed
 

ہاتھ کے گنگن پاؤں کے پےجَن سب کچھ گروی رکھے ہیں
وقت نے سارے قرضے پھر بھی ہم پر باقی رکھے ہیں
روز کے ملنے جلنے والوں کا بھی ملنا جلنا چھوٹ گیا
جب سے ہم لوگوں نے گھر میں لا کر ٹی-وی رکھے ہیں
ہم بھی کبھی دریا تھے اس کا ذکر کرنا بھی جرم ہوا
صرف ہماری پیاس کے قصے وادی وادی رکھے ہیں
آنسو کہہ لو گل کہہ لو یا کہہ لو پیمانہ
دل کے دو حرفوں میں ہم نے کتنے معانی رکھے ہیں
اسحاق اثرؔ اندوری

Abeed
 

استاد محترم کا شعر
ہم نے ترے ساتھ زمانے آخر تک انصاف کِیا
دل بھی اپنا صاف رکھا ہے ہاتھ بھی خالی رکھے ہیں

Abeed
 

رہے گی دور، سوا اس کے، حل نہ پائے گی
یہ کائنات کبھی مجھ میں ڈھل نہ پائے گی
عبید رضا عباس

Abeed
 

نعتیہ شعر
ہو قلم کی عطا تو لازم ہے
احمدِ مجتبی کی مدحت ہو
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
عبید رضا عباس

Abeed
 

بہت زعم رکھتے ہیں دونوں طرف کے
کنارے بھی پاگل ندی کے علاوہ
اسحاق اثرؔ اندوری

Abeed
 

فی البدیہہ
مجھے ہنستے ہوئے کہتی تھی اکثر
خدا شاہد، کوئی تجھ سا نہیں ہے
عبید رضا عباس

Abeed
 

فی البدیہہ
ملنا ترا محال ہے مَیں جانتا ہوں پر
آنکھیں تری تلاش میں بھٹکیں ہیں بدر
نقصان ہو چکا ہے جو ہونا تھا ایک بار
ہوتے ہیں اشک بار تجھے پھر سے سوچ کر
کاغذ کی کشتیاں لیے بچپن کی آرزو
پھر سے جواں ہوئی مرے ہاتھوں کو تھام کر
بھاری لگے ہے زندگی اتنی کہ پوچھ مت
جب چھوڑے بیچ راہ مسافر کو ہم سفر
اور بھی تو سینکڑوں ہوں گے مجھ سے حسین لوگ
ایسی بھی کیا کمی ہے، میں حاصل نہیں اگر
ایمان اک خدا پہ عقیدے جدا جدا
مرضی سے کر رہے ہیں روایت ادھر اُدھر
قابیل کے مزاج میں یوسف کے ویر ہیں
اس واسطے نہیں ہے بھروسہ عبیدؔ پر
عبید رضا عباس

Abeed
 

آکھݨے آ تا ہر کوئی آکھے
مینڈا آکھا فیدہ دیسی
ع ر ع

Abeed
 

ہمارا شعری سلسلہ
...
ولی دکنی , مرزا محمد علی صائب تبریزی
شیخ ظہور الدین حاتم ,
مرزا رفیع سودا , خواجہ میر درد
شاہ محمدی مائل
شاہ نصیر دہلوی
شیخ محمد ابراہیم ذوق
داغ دہلوی
مظفر علی اسیر لکھنوی ,
امیر مینائی, مضطر خیر آبادی ,
سیماب اکبر آبادی
ساغر نظامی
اسحاق اثر اندوری
اور یہ خاک پائے اساتذہ

Abeed
 

حمد خلاقِ دو عالم
سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری
ذرے ذرے پہ جہاں کے ہے خدائی تیری
میرا احساس تو چھو بھی نہ سکا عکس ترا
میں نے لفظوں سے ہی تصویر بنائی تیری
روشنی تیری ہی رہتی ہے نبردِ بینا
دی ہے کانوں کو بھی آواز سنائی تیری
ہونٹ ہلتے ہیں تو بس تیری عنایت کے سبب
کیسے الفاظ کریں شکر ادائی تیری
میری تنگی مری آسودگی سب تیری عطا
مجھ کو مخلوق میں حاصل ہے گدائی تیری
اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے منزل آ کر
جس کو مل جائے اگر راہنمائی تیری
اک طرف میری دعا ایک طرف بابِ اثرؔ
دونوں دیتے رہے ہونٹوں سے دہائی تیری
"اسحاق اثرؔ اندوری"