مذہب بھلے کوئی ہو پہ رہتا ہے تذکرہ
دنیا نے جس عبید کو تسلیم کر لیا
ع ر ع
ناکامیوں کا بوجھ ہے اتنا عبید پر
فرصت ملی جو سوچ سے، آرام کر لیا
ع ر ع
آورد
آئینہ نگار ہی پرکھیں عبید کو
قابل لگے جو آپ کو تو دید کیجیے
زحمت کریں جناب گریباں میں جھانک کر
اپنے عمل کو دیکھ کے تنقید کیجیے
عبید رضا عباس
ہک صحت صحیح نئیں اتے حوصلے دھ وی، اسی ہاں بس پور سپورے
راء امید علی امید
کل رات سے طبعیت بہت خراب ہے ـ
نمونیہ اور بخار نہیں چھوڑ رہا ـ
دعاؤں کی التماس ہے
علی اصغر کا نام آتے ہی
خشک آنکھوں پہ پھر گیا پانی
عبید رضا عباس
لاکھ کوشش کرو مگر اس نے
گفتگو میں پہل نہیں کرنی ٌ
عبید رضا عباس
ذہن کوئی سراغ پائے گا
سوچتے سوچتے جہاں پہنچے
ع ر ع
فی البدیہہ
آنکھ کی دسترس سے دور تھی جو
سوچتی سوچ اس جگہ پہنچی
عبید رضا عباس
غم کے بندھن میں بندھے ہیں دوستا
منہ خوشی ہم کو لگاتی ہی نہیں
ع ر ع
ہاتھ کے گنگن پاؤں کے پےجَن سب کچھ گروی رکھے ہیں
وقت نے سارے قرضے پھر بھی ہم پر باقی رکھے ہیں
روز کے ملنے جلنے والوں کا بھی ملنا جلنا چھوٹ گیا
جب سے ہم لوگوں نے گھر میں لا کر ٹی-وی رکھے ہیں
ہم بھی کبھی دریا تھے اس کا ذکر کرنا بھی جرم ہوا
صرف ہماری پیاس کے قصے وادی وادی رکھے ہیں
آنسو کہہ لو گل کہہ لو یا کہہ لو پیمانہ
دل کے دو حرفوں میں ہم نے کتنے معانی رکھے ہیں
اسحاق اثرؔ اندوری
استاد محترم کا شعر
ہم نے ترے ساتھ زمانے آخر تک انصاف کِیا
دل بھی اپنا صاف رکھا ہے ہاتھ بھی خالی رکھے ہیں
رہے گی دور، سوا اس کے، حل نہ پائے گی
یہ کائنات کبھی مجھ میں ڈھل نہ پائے گی
عبید رضا عباس
نعتیہ شعر
ہو قلم کی عطا تو لازم ہے
احمدِ مجتبی کی مدحت ہو
صلی اللہ علیہ والہ وسلم
عبید رضا عباس
بہت زعم رکھتے ہیں دونوں طرف کے
کنارے بھی پاگل ندی کے علاوہ
اسحاق اثرؔ اندوری
فی البدیہہ
مجھے ہنستے ہوئے کہتی تھی اکثر
خدا شاہد، کوئی تجھ سا نہیں ہے
عبید رضا عباس
فی البدیہہ
ملنا ترا محال ہے مَیں جانتا ہوں پر
آنکھیں تری تلاش میں بھٹکیں ہیں بدر
نقصان ہو چکا ہے جو ہونا تھا ایک بار
ہوتے ہیں اشک بار تجھے پھر سے سوچ کر
کاغذ کی کشتیاں لیے بچپن کی آرزو
پھر سے جواں ہوئی مرے ہاتھوں کو تھام کر
بھاری لگے ہے زندگی اتنی کہ پوچھ مت
جب چھوڑے بیچ راہ مسافر کو ہم سفر
اور بھی تو سینکڑوں ہوں گے مجھ سے حسین لوگ
ایسی بھی کیا کمی ہے، میں حاصل نہیں اگر
ایمان اک خدا پہ عقیدے جدا جدا
مرضی سے کر رہے ہیں روایت ادھر اُدھر
قابیل کے مزاج میں یوسف کے ویر ہیں
اس واسطے نہیں ہے بھروسہ عبیدؔ پر
عبید رضا عباس
آکھݨے آ تا ہر کوئی آکھے
مینڈا آکھا فیدہ دیسی
ع ر ع
ہمارا شعری سلسلہ
...
ولی دکنی , مرزا محمد علی صائب تبریزی
شیخ ظہور الدین حاتم ,
مرزا رفیع سودا , خواجہ میر درد
شاہ محمدی مائل
شاہ نصیر دہلوی
شیخ محمد ابراہیم ذوق
داغ دہلوی
مظفر علی اسیر لکھنوی ,
امیر مینائی, مضطر خیر آبادی ,
سیماب اکبر آبادی
ساغر نظامی
اسحاق اثر اندوری
اور یہ خاک پائے اساتذہ
حمد خلاقِ دو عالم
سوز بھی ساز بھی ہر نغمہ سرائی تیری
ذرے ذرے پہ جہاں کے ہے خدائی تیری
میرا احساس تو چھو بھی نہ سکا عکس ترا
میں نے لفظوں سے ہی تصویر بنائی تیری
روشنی تیری ہی رہتی ہے نبردِ بینا
دی ہے کانوں کو بھی آواز سنائی تیری
ہونٹ ہلتے ہیں تو بس تیری عنایت کے سبب
کیسے الفاظ کریں شکر ادائی تیری
میری تنگی مری آسودگی سب تیری عطا
مجھ کو مخلوق میں حاصل ہے گدائی تیری
اس کے قدموں سے لپٹ جاتی ہے منزل آ کر
جس کو مل جائے اگر راہنمائی تیری
اک طرف میری دعا ایک طرف بابِ اثرؔ
دونوں دیتے رہے ہونٹوں سے دہائی تیری
"اسحاق اثرؔ اندوری"
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain