کہاں جوڑ پائیں گے ہم دھڑکنوں کو کہ دل کی طرح ہم بھی ٹوٹے ہوئے ہیں یہ مانا کہ تم سے خفا ہیں ذرا ہم مگر زندگی سے بھی روٹھے ہوئے ہیں یہی ہم نے سیکھا ہے جرمِ وفا سے بچھڑ جائیے گا تو مر جائیے گا
ٹوٹا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ تڑپا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ کہتا نہیں کسی سے مگر جانتے ہیں ہم۞ رویا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ پھیلا کے اپنے گرد تصاویر اور خطوط۞ بکھرا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ ہر زخم کا علاج مسیحائی میں نہیں ۞ سمجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ راتوں کی سائیں سائیں میں تنہائیوں کے بیچ۞ جاگا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ دہلیز پر پرانے زمانوں کا منتظر۞ بیٹھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞ اٹھتے قدم ہماری طرف روکتے ہوئے۞ الجھا ضرور ہو گا بچھڑنے کے بعد وہ۞
خدا کے بندے میں رو پڑوں گی اگر کسی دن دوبارہ مجھ سے محبتوں کا سوال پوچھا زوال پوچھا میں رو پڑوں گی میں اس کے دل میں رہی ہوں لیکن اب اس کے دل سے نکل چکی ہوں وہ اپنی راہ پر چلا گیا ہے میں اپنی راہ پر چلی گئی ہوں اب اس سے زیادہ کوئ بھی مجھ سے سوال پوچھا تو میں رو پڑوں گی
میرے قرب سے میرے وجود تک اسے اختلاف تو سدا کا تھا....! میرے غم سے میرے جنون تک یہ فیصلہ بس انا کا تھا....! میری زندگی سے میری سانس تک یہ فیصلہ بس دعا کا تھا....! میری حقیقت سے میرے خواب تک وہ بے خبر انتہا کا تھا....! میرے وہم سے میرے گمان تک یہ مرحلہ وفا کا تھا.....! میری طلب سے میرے نصیب تک یہ معاملہ خدا کا تھا......!
ہم خاک نشیں تو شاہ پیا! !!ہمیں تیری دید کی چاہ پیا... . اک شام پلٹ کر دیکھ ہمیں ہم بیٹھ گئے تری راہ پیا!!... . ہم اشک بہائیں مجلس میں مسجد مسجد ، درگاہ پیا ! . . پڑھ شعر ہمارے! داد بھی دے! چل "" آہ "" نہ کر! کر وااہ پیا !