Damadam.pk
Adnan-Chandio's posts | Damadam

Adnan-Chandio's posts:

Adnan-Chandio
 

اب جو لوٹے ہو اتنے سالوں میں
دھوپ اتری ہوئی ہے بالوں میں
.
تم مری آنکھ کے سمندر میں
تم مری روح کے اجالوں میں
.
پھول ہی پھول کھل اٹھے مجھ میں
کون آیا مرے خیالوں میں
.
میں نے جی بھر کے تجھ کو دیکھ لیا
تجھ کو الجھا کے کچھ سوالوں میں
.
میری خوشیوں کی کائنات بھی تو
تو ہی دکھ درد کے حوالوں میں
.
کیا اسے یاد آ رہا ہوں وصیؔ
رنگ ابھرے ہیں اس کے گالوں میں

Adnan-Chandio
 

اس عہد میں الٰہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
.
امیدوار وعدۂ دیدار مر چلے
آتے ہی آتے یارو قیامت کو کیا ہوا
.
کب تک تظلم آہ بھلا مرگ کے تئیں
کچھ پیش آیا واقعہ رحمت کو کیا ہوا
.
اس کے گئے پر ایسے گئے دل سے ہم نشیں
معلوم بھی ہوا نہ کہ طاقت کو کیا ہوا
.
بخشش نے مجھ کو ابر کرم کی کیا خجل
اے چشم جوش اشک ندامت کو کیا ہوا
.
جاتا ہے یار تیغ بکف غیر کی طرف
اے کشتۂ ستم تری غیرت کو کیا ہوا
.
تھی صعب عاشقی کی بدایت ہی میرؔ پر
کیا جانیے کہ حال نہایت کو کیا ہوا

Adnan-Chandio
 

نہیں وسواس جی گنوانے کے
ہائے رے ذوق دل لگانے کے
.
میرے تغییر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے
.
دم آخر ہی کیا نہ آنا تھا
اور بھی وقت تھے بہانے کے
.
اس کدورت کو ہم سمجھتے ہیں
ڈھب ہیں یہ خاک میں ملانے کے
.
بس ہیں دو برگ گل قفس میں صبا
نہیں بھوکے ہم آب و دانے کے
.
مرنے پر بیٹھے ہیں سنو صاحب
بندے ہیں اپنے جی چلانے کے

Adnan-Chandio
 

کب تلک جی رکے خفا ہووے
آہ کریے کہ ٹک ہوا ہووے
.
جی ٹھہر جائے یا ہوا ہووے
دیکھیے ہوتے ہوتے کیا ہووے
.
کر نمک سود سینۂ مجروح
جی میں گر ہے کہ کچھ مزہ ہووے
.
کاہش دل کی کیجیے تدبیر
جان میں کچھ بھی جو رہا ہووے
.
مر گئے ہم تو مر گئے تو جی
دل گرفتہ تری بلا ہووے
.
پھر نہ شیطاں سجود آدم سے
شاید اس پردے میں خدا ہووے
.
نہ سنا رات ہم نے اک نالہ
غالباً میرؔ مر رہا ہووے

Adnan-Chandio
 

ہوا جفاؤں کی ایسی چلا گیا کوئی
چراغ میری وفا کا بجھا گیا کوئی
.
نہ کوئی نقش قدم ہے نہ منزلوں کا پتا
یہ راستہ مجھے کیسا دکھا گیا کوئی
.
اسی امید پے میں انتظار کرتی رہی
میں لوٹ آؤنگا کہ کر چلا گیا کوئی
.
تمام عمر کے احساں بھلا دۓ اس نے
ذرا سی بات پے ہو کر خفا گیا کوئی
.
اب اس سے بڑھکے بھلا بے وفائی کیا ہوگی
ہنسایا جس نے اسی کو رلا گیا کوئی
.
کسی کے عشق میں سب کچھ لٹا دیاوشمہ
دل و دماغ پے اس طرح چھا گیا کوئی

Adnan-Chandio
 

بِتا تو دی ہے مگر زِیست بار جیسی تھی
تمام عُمر مِری اِنتظار جیسی تھی
.
حیات کیا تھی، فقط اِنتشار میں گُزری
گہے تھی زخم سی گاہے قرار جیسی تھی
.
مِلا ہُؤا مِری چائے میں رات کُچھ تو تھا
کہ شب گئے مِری حالت خُمار جیسی تھی
.
تُمہاری یاد کی خُوشبُو کے دائروں میں رہا
اگرچہ زرد رہی، پر بہار جیسی تھی
.
تُمہارے ہِجر کے موسم میں، کیا کہُوں حالت
کبھی اُجاڑ، کبھی تو سِنگھار جیسی تھی
.
رہی ہے گِرد مِرے حلقہ اپنا تنگ کِیئے
حیات جیسے کِسی اِک حِصار جیسی تھی
.
وہ رات جِس سے میں شب بھر لِپٹ کے روتا رہا
رشِیدؔ شب تھی مگر غمگُسار جیسی تھی

Adnan-Chandio
 

کچھ کہوں، کچھ سنوں، ذرا ٹھہرو
ابھی زندوں میں ہوں، ذرا ٹھہرو
.
منظرِ جشنِ قتلِ عام کو میں
جھانک کر دیکھ لوں، ذرا ٹھہرو
.
مت نکلنا کہ ڈوب جاؤ گے
خوں ہے بس، خوں ہی خوں، ذرا ٹھہرو
.
صورتِ حال اپنے باہر کی
ہے ابھی تک زبوں، ذرا ٹھہرو
.
ہوتھ سے اپنے لکھ کے نام اپنا
میں تمہیں سونپ دوں، ذرا ٹھہرو
.
میرا دروازہ توڑنے والو
میں کہیں چھپ رہوں، ذرا ٹھہرو

Adnan-Chandio
 

کوئی ثبوت جرم جگہ پر نہیں ملا
ٹوٹے پڑے تھے آئنے پتھر نہیں ملا
.
پتھر کے جیسی بے حسی اس کا نصیب ہے
وہ قوم جس کو کوئی پیمبر نہیں ملا
.
جب تک وہ جھوٹ کہتا رہا سر پہ تاج تھا
سچ کہہ دیا تو تاج ہی کیا سر نہیں ملا
.
ہم رات بھر جلیں بھی تمہیں روشنی بھی دیں
ہم کو چراغ جیسا مقدر نہیں ملا
.
شہر ستم بھی جشن اماں مت منا ابھی
شاید ستم گروں کو ترا گھر نہیں ملا
.
داناؔ وہ اب بھی آتا ہے تنہائیوں میں یاد
دنیا کی بھیڑ میں جو بچھڑ کر نہیں ملا

Adnan-Chandio
 

مجھے بھول جانے والے تجھے یاد کر رہا ہوں
اشکوں سے اپنی راتیں برباد کر رہا ہوں
.
سلگتا ہوا ہے ماضی پرچھائیوں کے در پر
خود کو ستا کے دل کو ناشاد کر رہا ہوں
.
دل توڑ کے توں نے ظالم کیسا ستم کیا ہے
زخمائے ہوئے ٹکڑوں کو بے تاب کر رہا ہوں
.
گمنام سے سفر کی کب شام یہ ڈھلے گی
ہر راہ کی گھٹن کو سیراب کر رہا ہوں
.
پتھرا گئی تھیں آنکھیں سنگلاخ راستوں پے
دھلا گئیں ہیں نظریں کہرام کر رہا ہوں

Adnan-Chandio
 

وصال و ہجر سے وابستہ تہمتیں بھی گئیں
وہ فاصلے بھی گئے اب وہ قربتیں بھی گئیں
.
دلوں کا حال تو یہ ہے کہ ربط ہے نہ گریز
محبتیں تو گئیں تھی عداوتیں بھی گئیں
.
لبھا لیا ہے بہت دل کو رسم دنیا نے
ستم گروں سے ستم کی شکایتیں بھی گئیں
.
غرور کج کلہی جن کے دم سے قائم تھا
وہ جرأتیں بھی گئیں وہ جسارتیں بھی گئیں
.
نہ اب وہ شدت آوارگی نہ وحشت دل
ہمارے نام کی کچھ اور شہرتیں بھی گئیں
.
دل تباہ تھا بے نام حسرتوں کا دیار
سو اب تو دل سے وہ بے نام حسرتیں بھی گئیں

Adnan-Chandio
 

اکیلے رہنے کی خود ہی سزا قبول کی ہے
یہ ہم نے عشق کیا ہے یا کوئی بھول کی ہے
.
خیال آیا ہے اب راستہ بدل لیں گے
ابھی تلک تو بہت زندگی فضول کی ہے
.
خدا کرے کہ یہ پودا زمیں کا ہو جائے
کہ آرزو مرے آنگن کو ایک پھول کی ہے
.
نہ جانے کون سا لمحہ مرے قرار کا ہے
نہ جانے کون سی ساعت ترے حصول کی ہے
.
نہ جانے کون سا چہرہ مری کتاب کا ہے
نہ جانے کون سی صورت ترے نزول کی ہے
.
جنہیں خیال ہو آنکھوں کا لوٹ جائیں وہ
اب اس کے بعد حکومت سفر میں دھول کی ہے
.
یہ شہرتیں ہمیں یوں ہی نہیں ملی ہیں شکیلؔ
غزل نے ہم سے بھی بہت وصول کی ہے

Adnan-Chandio
 

مجھے جینا ہے اس کے ساتھ
دل مرنے کی باتیں کیوں کرتا ہے !

Adnan-Chandio
 

مــون ۾ ائين تـون رھندي آھين
اکڙين ۾ جيئن خــواب رھــن ٿا
راشــد آدرش

Adnan-Chandio
 

جب ہم ہی نہ مہکے پھر صاحب!
تم بادِ صبا کہلاؤ تو کیا۔
عبداللہ علیم

Adnan-Chandio
 

آنکھیں بند ہونے سے پہلے اگر کھل جائیں تو زندگی سدھر جاتی ہے!

Adnan-Chandio
 

جس کے حصے میں رات آئی ہے__
اُس کے حصے میں چاند بھی ہوگا..

Adnan-Chandio
 

تو جو ہے جان، تو جو ہے جاناں،
تو ہمیں آج تک ۔۔۔ ملا ہی نہیں!!
جون💔

Adnan-Chandio
 

صرف دِن ڈھلنے پہ موقوف نہیں ہے "محسن"
زندگی زُلف کے سائے میں بھی شب کرتی ہے

Adnan-Chandio
 

ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح🥀

Adnan-Chandio
 

یہ چند سانسوں کی فرصت بڑی غنیمت ہے
کسے خبر ہے کہ، پھر حادثے ٹلیں نہ ٹلیں
احمد فراز