نظم زندگی کی ڈگر پر ہم نے کیسےکیسے خواب دیکھے، خواب ایسے کہ جن تعبیر تازہ پانی کے رِستے چشموں میں بہہ گئی تھی وہ خواب سارے سچ ہوۓ کیا ؟ بھیس اوڑھےکالی راتوں میں خالی سڑکوں پر اپنے جھوٹے کردار سے رہائی مانگی تو باغی ٹھرے،بد گماں ٹھرے اور نجانے کتنی آوازیں کتنے الزام آئے ہم پر وہ الزام سارے سچ ہوۓ کیا ؟ اک حسین بچپن کی رمز تھی کہ جس رمز میں نیلے رئپر میں بند ٹافی کو بیچ دانتوں کے دے کر آدھا کرنا اور کبھی درختوں پے بیٹھے پنچھیوں کو دیر تک تکتے رہنا اور اب آنکھہ کھلتی ہے تو خواب گاہوں سے دور خود کو شعور کی ڈور میں اٹکا دیکھیں کہ جس کی گرہیں وقت سے اُلجھ رہی ہیں سفید چاندی بھی بالوں میں اتر رہی ہے اور پھر جو خود کو آئینے میں دیکھیں تو خیال آتا ہے ہم ہی تھے جنہیں اس زمیں پر نقش ہونا تھا ؟؟؟
سُنو محبت کے صاف مُنکر بجا کہا کہ ۔۔ کہیں نہیں ہوں ۔۔!!!! تمہارے دِل کے کِسی بھی گوشے میں یاد بن کر ۔۔۔ نہیں ہوں اب میں ۔۔۔ !!! غُبارِ ہجراں کے سِلسلوں نے وصال رُت کی تمام یادیں ، تمہارے دِل سے دھکیل دی ہیں۔۔!! مگر مری جاں ، سمے مِلے تو یہ غور کرنا تُمہاری آنکھوں کی سرحدوں پر اُبھرنے والی ہر ایک نُس میں ۔۔۔ یہ سُرخ ڈورے جو بُن رہا ہے ۔۔ لہو نہیں ہے ۔۔۔ !! وہ میں ہوں جاناں۔۔۔ !! کہ جِس لہو کو طواف کر کے تمہارے دِل میں ہی لوٹنا ہے ۔۔۔!!