حبیب جالب جب جیل گئے ... تو وہاں موجود ان کے دوستوں نے پوچھا: کیا حال ہے اب ملک کا؟ انہوں نے جواب دیا : بالکل ویسا ہی ... جیسا جیل میں ہونے والی نماز کا ہوتا ہے ... جیل میں ... اذان ، فراڈیا دیتا ہے ... امامت، قاتل کراتا ہے ... اور نمازی، سب کے سب چور ہوتے ہیں ...
*جب آنسو نکلتے ہیں ... تو ان میں صرف نمک اور پانی نہیں ہوتا ... ان میں ماضی کی تکلیفیں ... درد ... دکھ ... اپنوں کے ستم ... چاہنے والوں کی بے اعتباری کا غم ... کبھی نہ بھرنے والے زخموں کی ٹیسیں ... وعدوں کی پامالی ... اور نہ جانے کیا کیا احساسات ... اور جذبات چھپے ہوتے ہیں ...!!!*
*کوئی کیچڑ سے پھسل کر گِر جائے تو* *وہ یہ بعد میں دیکھتا ہے کہ مجھے چوٹ* *تو نہیں آئی* *پہلے یہی دیکھتا ہے کہ مجھے کسی نے* *گِرتے ہوئے دیکھا تو نہیں* *اِسکا مطلب ! انسان کو اپنی ”عزت“ اپنی* *جان سے بڑھکر پیاری ہوتی ہے* *اسی لئے اپنی اور دوسروں کی عزت کا بھی* *خیال رکھیں۔*