اس ڈر سےمیں قمیص کبھی جھاڑتا نہیں کب جانے آستین سے احباب گر پڑیں جاگیں تو احتیاط سے پلکوں کو کھولئے ایسا نہ ہو کہ آنکھوں سے کچھ خواب گر پڑیں اک باردیکھ لیں جو وہ تیرے بدن کا نور قدموں میں تیرے انجم ومہتاب گر پڑیں اتنا بھی مت بڑھایئے رخت سفر کہ کل جب پوٹلی اٹھائیں تو اسباب گر پڑیں رہنے بھی دیں نہ منھ مرا کھلوائیے جناب ایسا نہ ہو کہ آپ کے القاب گر پڑیں
دعائیں، منتیں، روشن دِیا قبول کرے وہ آئے اور مِرے اشکِ وفا قبول کرے وہ آئینے سے اگر مطمئن نہیں ہے تو پھر ہماری آنکھیں بہ طور آئینہ قبول کرے میں زندگی میں فقط تجھ کو دیکھ پایا ہوں خدائے خواب مِرا دیکھنا قبول کرے
دل رہے فریاد کناں ، تیرا ذکر ورد زباں رہے تیری ہی یادوں سے دل کی ، دهڑکن رواں رہے ہونٹوں پے جاری رہے ، تیرے نام کی تسبیح رویں ،رویں پے قابض تو ، تیرا ہجر پهر کہاں رہے
درد سے، یادوں سے، اشکوں سے شناسائی ہے کتنا آباد مرا گوشۂ تنہائی ہے خار تو خار ہیں، کچھ گل بھی خفا ہیں مجھ سے میں نے کانٹوں سے الجھنے کی سزا پائی ہے میر تقی میر
جگہ کچھ تصویر کے حصے میں رکھنا ھمیں اپنی تقدیر کے حصے میں رکھنا کچھ خواب سچ ھو جاے ممکن ھے کچھ خواب تعبیر کے حصے میں رکھنا نامکمل میرے عشق کی عمارت میں دل کو زیر تعمیر کے حصے میں رکھنا نام میرا بےوفا تم بےدھڑک لکھنا مگر اپنی ھر تحریر کےحصے میں رکھنا دیوانہ پاگل ھے دل تیرا رفیق اسے اسیر الفت زنجیر کے حصے میں رکھنا
ہر بار مجھے زخم جدائی نہ دیا کر، اگر تو میرا نہیں تو مجھ کو دکھائی نہ دیا کر، سچ جھوٹ تیری آنکھ سے ہو جاتا ہے ظاہر، قسمیں نہ اٹھا اتنی صفائی نہ دیا کر، معلوم ہے تو رہتا ہے مجھ سے گریزاں، پاس آ کے محبت کی دہائی نہ دیا کر، اڑ جائیں تو لوٹ کے آتے نہیں واپس، ہر بار پرندوں کو رہائی نہ دیا کر،