اچھا ۔۔۔ بڑی تم تو چالاک ہو اتنی دور بیٹھے ایسے اندازے لگا لیتی ہو ۔۔۔ دانیال نے ہونٹ باہر نکال کر لاپرواہی سے کہا۔۔
ہاں تو کرتے ہیں آپ بات پکڑا نہیں تھا میں نے اس دن ۔۔۔ ماہا نے تیکھی سی آواز میں آنکھیں سکیڑ کر کہا۔۔۔
بتایا تو تھا میری کولیگ ہے۔۔۔ حد کرتی ہو تم ۔۔۔ دانیال نے برابر خفگی کے انداز میں کہا۔
اور زبردستی اسے کمرے میں لے گیا تھا۔۔۔
*************
کیا کر رہے آپ۔۔۔ ماہا نے پر شوق انداز میں پوچھا۔۔۔
تمہیں یاد کر رہا۔۔۔ دانیال نے مصروف سی آواز میں کہا تھا۔۔۔
جھوٹ ۔۔۔ ماہا کی خفگی بھری آواز فون میں ابھری تھی۔۔۔
چلو پھر تم خود بتا دو کیا کر رہا میں۔۔۔ دانیال نے ٹھنڈی سانس بھر کر کہا تھا۔۔۔
ماہم ارسہ کی شادی کے سلسلے میں لاہور گٸ ہوٸ تھی۔۔۔ اور دن میں کوٸ دس بار وہ فون کرتی تھی اور چاہتی تھی دانیال دیر تک باتیں کرے۔۔۔
ٹی وی دیکھ رہے ہوں گے یا موباٸل پر کسی لڑکی سے بات کر رہے ہیں ہوں گے ۔۔ ماہا نے طنزیہ لہجے میں خفگی سے کہا۔۔
اب وہ ہر بات میں بس یہی کہتی رہتی تھی آپکو اب پیار نہیں ہے مجھ سے ۔۔۔ اسے اب چڑ ہونے لگی تھی اس فقرے سے۔۔۔
دیکھا۔۔۔ ماہا کی آواز ایک دم آنسوٶں سے بھاری ہو گٸ تھی۔۔۔
ماہا۔۔۔ اب پھر ہو جاٶ ناراض ۔۔۔ بس ایک ہی کام یار تم ناراض ہوتی رہو اور میں مناتا رہوں۔۔۔ دانیال کو اسے روتا دیکھ کر اور غصہ آ گیا تھا۔۔۔
مجھے امی کی طرف جانا ہے۔۔۔ بچوں کی طرح گال صاف کرتے ہوۓ غصے سے کہا۔۔۔
ابھی دو ماہ پہلے تو گٸ تھی۔۔۔ دانیال نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔۔
بس مجھے جانا ہے۔۔۔ ماہ نے چیخنے کے انداز میں کہا۔۔۔
4
اچھا چلو یار ۔۔۔ چلو سوتے ہیں ۔۔۔ اٹھو۔۔۔۔ دانیال نے غصے سے ٹی وی بند کر کے ریموٹ ایک طرف اچھالا تھا۔۔
نہیں رہنے دیں اب دیکھ لیں ٹی وی۔ماہا نے غصے سے کہا
ماہا ۔۔۔ میرا دماغ مت گھوماٶ۔۔۔ چلو اٹھو بھاڑ میں گیا ٹی وی۔۔۔ دانیال نے غصے سے بازو دبوچا تھا
ان کی شادی کو چھ ماہ ہو چکے تھے۔۔۔ دانیال کی محبت میں کوٸ کمی نہیں تھی لیکن اب وہ ویسے لاڈ کم ہی اٹھاتا تھا جیسے پہلے اٹھاتا تھا ۔۔۔
آپ کو ویسے بھی مجھ سے اب پیار ہی نہیں ہے۔۔۔ روہانسی آواز میں کہا تھا۔۔
ماہم ہر وقت یہی چاہتی تھی کہ وہ اس کے ساتھ رہے۔۔۔ محبت بھری باتیں کرتا رہے لیکن اس کی طبیعت ایسی نہیں تھی۔۔۔ وہ ماہم سے دل وجان سے محبت کرتا تھا پر بعض اوقات اس کے یوں چپک جانے پر اسے چڑ ہو جاتی تھی۔۔ وہ چاہتی تھی بس سانس بھی وہ اس کی مرضی سے لے۔۔۔ یہی وجہ تھی اس نے کبھی لڑکی سے محبت کا سیاپہ نہیں پالا تھا۔۔ اس نے صرف ماہم کی روز کی چک چک کی وجہ سے آذر اور فواد سے ملنا بھی کم کر دیا تھا۔۔۔ اور اب ٹی وی تک وہ اپنی مرضی سے نہیں دیکھ پا رہا تھا ۔۔۔
ہاں نہیں ہے۔۔۔ دانیال نے چڑ کر بے زار سی شکل بنا کر کہا تھا۔۔۔
کچن سے ہی ہانک لگاٸ تھی۔۔
***************
چلیں اٹھیں اندر چلیں۔۔۔ ماہا نے کندھے پر سر رکھتے ہوۓ نیند کی خماری میں کہا۔۔۔
بس یہ تھوڑا سا میچ رہتا لاسٹ اورز ہیں ۔۔ دانیال نے ایک نظر اس پر ڈال کر کہا۔۔۔
اپنے مخصوص انداز میں دانیال کی ٹی شرٹ کے نیچے اپنا کھلا کپری پہنے وہ اس کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔۔۔
مجھے نیند نہیں آ رہی۔۔۔ چلیں نہ بس کریں سوتے ہیں اب یہ کونسا پاکستان کا میچ ہے۔۔۔ ماہا نے تھوڑے چڑنے کے انداز میں کہا تھا۔۔۔
اچھا نہ تم جا کر لیٹو میں آتا ہوں ۔۔۔ دانیال نے محبت سے گال تھپتھپا کر کہا۔۔
نہیں آتے آپ ۔۔۔ ماہا نے آنکھیں سکیڑ کر ناک پھلا کر کہا تھا۔۔۔
ماہا کیا بچوں کی طرح کر رہی ہو۔۔۔ تمہیں سمجھ نہیں آتا کیا۔۔۔ دانیال نے بھی چڑ کر کہا میچ کے بہت انٹرسٹنگ اورز چل رہے تھے اور ماہا ضد پر اڑی ہوٸ تھی۔۔
وہ تیزی سے اٹھ کر کھڑی ہوٸ تھی جب دانیال نے کمر کے گرد بازو حاٸل کیا تھا ۔۔۔ وہ جھینپ کے پیچھے ہوٸ تھی۔۔۔
اچھا پھر ایک کام تو کرو۔۔۔ دانیال نے شرارت سے لب دانتوں میں دبا کر کہا۔۔
بولیں۔۔۔ مسکراہٹ سے کھلتے گلابی چہرے کے ساتھ کہا۔
چاۓ کا ایک کپ تو بنا دو۔۔۔ دانیال نے پاس ہو کر کان میں سرگوشی کی۔۔۔
ماہا نے خفا سی شکل بنا کر دیکھا۔۔۔جب کے دانیال اب قہقہ لگا رہا تھا۔۔۔
اچھا بنا دیتی ہوں ۔۔۔ ماہا نے خفا سی شکل میں کہا۔۔۔
وہ تو دانیال کا اچھا موڈ دیکھ کر آٸسکریم کی فرماٸش کرنے والی تھی لیکن یہاں جناب نے پہلے ہی چاۓ کی فرماٸش کر ڈالی۔۔۔
اچھی ہونی چاہیے ایک دم فرسٹ کلاس سی۔۔۔ زیادہ دیر پکانی ہے ۔۔ وہ کچن میں تھی جب دانیال کے آرڈر آنا شروع ہو گۓ تھے۔۔۔
آپ خود ہی بنا لیں اگر اتنی ہدایتیں دینی ہے۔۔۔ ماہم نے غصے سے سر ہوا میں مارتے ہوۓ کچن
ماہم کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو آ گۓ تھے۔۔۔ اب ایسی بھی کیا غلطی ہو گٸ کہ بلکل ہی دیکھ بھی نہیں رہے۔۔۔ وہ ڈبڈباتی آنکھوں کے ساتھ وہاں سے اٹھی تھی ۔۔
اچھا ۔۔۔ بات سنو ۔۔ بات سنو۔۔۔ دانیال نے فورا بازو سے پکڑ کر محبت سے بیٹھایا تھا۔۔
بہت مزے کی۔۔۔ ہے۔۔۔ اس کی کرسی کو کھینچتے ہوۓ قریب کیا اور شرارت سے کہا۔۔۔
پھر آہستہ سے اس کے آنسو صاف کیے تھے جو بے ساختہ گالوں پر ٹپک پڑے تھے۔۔۔
کیا کر رہے ہیں ۔ ۔۔ اماں آ جاٸیں گی۔۔ اس کی مزید جسارت پر ماہا نے جھینپ کر کہا تھا ۔۔اور سرخ ہوتے ناک اور روٸ ہوٸ آنکھوں کے ساتھ چہرہ بلکل بارش کے بعد کا دلکش موسم لگ رہا تھا۔۔۔
تو آ جاٸیں ۔۔۔ ماہا جو شرما کر کرسی سے اٹھ رہی تھی پھر سے جھٹکا دے کر کرسی پر بیٹھا دیا۔۔۔
شرم کریں۔۔۔۔ ماہا نے زور سے اپنے ہاتھوں سے پیچھے کیا اور کھلکھلاتی ہنسی گونج اٹھی تھی۔۔
دانیال نے خاموشی سے پلیٹ آگے کی تھی اور کھانا شروع کر دیا۔۔۔
صبح وہ غصے میں اٹھی ہی نہیں تھی ناشتہ بنانے کے لیے۔۔۔ اور دانیال بھی ایسے ہی آفس چلا گیا تھا ۔۔۔ پھر بعد میں بار بار دل کیا کہ دانیال کو مسیج کرے اور برا بھی لگا کہ وہ ناشتہ کیے بنا ہی چلے گۓ۔۔۔
کیسی ہے۔۔۔ تھوڑے لاڈ کے انداز میں پوچھا ۔۔۔ اس کا غصہ اتر چکا تھا۔۔۔ اور اب دانیال کی خفگی برداشت نہیں ہو رہی تھی۔۔۔
اچھی۔۔۔ دانیال نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا وہ سر جھکاۓ خاموشی سے کھانے میں مصروف تھا۔۔۔
صرف۔۔ ماہم نے ہونٹ باہر نکالتے ہوۓ روہانسی شکل میں کہا
اس نے آج بہت دل سے بریانی بناٸ تھی ۔۔ کہ دانیال کی خفگی ختم ہو جاۓ۔۔۔
ہمم۔م۔م۔م صرف۔۔ دانیال نے سنجیدہ سی شکل میں سپاٹ لہجے میں کہا۔۔۔
میں اپکی اماں نہیں ہوں ۔۔۔ ماہا کا بھی اس بات پر پارہ چڑھ گیا تھا۔۔ وہ زور سے چیخی تھی۔۔
اتنا تو وہ خود کو بدل چکی تھی دانیال کےلیے اب کیا کرتی وہ اس کی عادت نہیں تھی بھاگ دوڑ کر کام کرنا وہ اپنے طریقے سے آہستہ آہستہ کام کرتی تھی۔۔ پر ان نواب کو تو کوٸ مشین چاہیے تھی جو ہر چیز ان کے سامنے حاضر بھی کرے اور پھر سلیقہ بھی عین ان کی مرضی کے مطابق ہو۔۔۔
تو پھر جاٶ یار میرا سر کیوں کھا رہی ہو۔۔ دانیال اونچی آواز میں دھاڑا تھا۔۔۔
جا ہی رہی ہوں ۔۔۔ ماہا نے بھی برابر چیخ کر کہا اور پیر پٹختی ہوٸ باہر چلی گٸ تھی۔۔۔
وہ ساری رات ٹی وی لاونچ میں بیٹھی روتی رہی تھی۔۔۔لیکن دانیال نہیں آیا تھا۔۔۔
***************
میں نے بناٸ ہے۔۔۔ بریانی دانیال کے سامنے رکھ کر خفا سی شکل میں کہتی ہوٸ وہ بلکل ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گٸ تھی
وہ تیزی سے وہاں سے اٹھ کر کمرے میں آیا تھا ۔۔ وہ بھی پیچھے پیچھے کمرے میں ہی آ گٸ تھی۔۔۔
اب تم نے واش روم کا حال دیکھا ہے۔۔۔ اور یہ ڈریسنگ میز کے دراز ۔۔ دانیال کمر پر ہاتھ رکھے غصے میں دھاڑا تھا۔۔
ماہا ایک لمحے کے لیے تو دہل گٸ تھی۔۔۔
دانی کرتی تو ہوں ۔۔۔ ماہا نے غصے سے کہا۔۔
خاک کرتی ہو یار موباٸل پر لگی رہتی ہو ۔۔ دانیال نے ماتھے پر بل ڈالےکہا جب کہ ھاتھ ابھی بھی ہنوز ویسے ہی کمر پرتھے۔۔۔
آپ کو کیسے پتا یہ سب ۔۔۔ آپ تو گھر ہی نہیں ہوتے کرتی تو ہوں میں سب کچھ پر میں آہستہ آہستہ کرتی ہوں ۔۔ ماہا نے غصے اور رونے والی ملی جلی آواز میں کہا
تو کیوں کرتی ہو آہستہ اماں کو دیکھو اس عمر میں بھی کتنا کام کرتیں ہیں۔۔ دانیال کا غصہ آسمان کو چھونے لگا تھا
دو مہینےکہ ضبط کا دامن اب چھوٹ گیا تھا۔۔۔ دو ماہ سے وہ اس کی لاپرواہی کوبرداشت کر رہا تھا
دانیال نے دانت پیستے ہوۓ ضبط سے کام لیا ۔۔۔ لیکن پھر بھی آواز اونچی ہو گٸ تھی۔۔۔
اب تو خیر سے بھوک بھی مر گٸ تھی ہاں البتہ اب دماغ کی پھرکی گھوم چکی تھی۔۔۔
اچھا اب اونچی آواز میں مت لڑیں اماں تک آواز جاۓ گی۔۔ ماہا نے پاس آ کر لب کچلتے ہوۓ بازو پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔
اوہ یار چھوڑو اب ۔ ۔۔۔ دانیال نے غصے سے بازوپر رکھا ہوا اس کا ہاتھ جھٹکا تھا۔۔۔
ٹی وی کا ریمیوٹ اٹھا کر ٹی وی کے سامنے رکھ کر چلایا اور خود بھی اس کے سامنے بیٹھ گیا۔
اچھا چاۓ بنا دوں۔۔۔ ماہا نے پھر روہانسی آواز میں کہا۔۔۔۔
تمہیں پتا ہے مجھے چڑ ہے جن کاموں سے یار وہی کرتی ہو۔۔۔ دانیال کا صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا تھا۔۔۔ زور سے ریموٹ صوفے پر مارا۔۔۔
وہ چاہتا تھا اب وہ سامنے نہ آۓ کچھ دیر لیکن وہ تھی کہ کھڑی سر پر بولے جا رہی تھی۔۔
۔ جو کہ وہ خود بلکل نہیں تھی وہ لاپرواہ سی تھی ہمیشہ سے لیکن اب دانیال کے لیے وہ بہت احتیاط کرتی تھی لیکن پھر بھی کوتاہی ہو جاتی تھی۔۔۔ اور پھر ۔۔۔
اٹھا لو یہ ۔۔۔ دانیال نے ناگواری سے سامنے رکھے کھانے کو ہاتھ سے پیچھے کیا تھا اور خفا سی شکل بنا کر کھانے کے میز سے اٹھ گیا تھا۔۔
آج آفس میں اتنا کام تھا فلیڈ کا ۔۔۔ وہاں بھی صیح سے کچھ کھایا نہیں گیا تھا۔۔۔ سوچا شام کو گھر جا کر سکون سے کھاٶں گا ۔۔ لیکن گھر میں یہ تماشہ ہو گیا تھا۔۔۔ ماہم کو پتا بھی ہے کہ مجھے کھانے میں کتنی صفاٸ پسند ہے اسی لیے تو میں باہر کا کھانا کم کھاتا ہوں ۔۔۔ لیکن وہ میرے لیے اپنی لاپرواہی تک کو ختم نہیں کرتی ہے۔۔۔
میں اور لا دیتی ہوں سالن۔۔ ماہا نے پریشان سی شکل بنا کر کہا اور جلدی سے سالن والی پلیٹ کو اٹھایا۔۔۔
اوہ نہیں یار بس اب دل نہیں چاہ رہا اٹھا لو یہ۔۔۔
قسط نمبر4
ماہا۔۔۔ یہ دیکھو۔۔۔ دانیال نے پلیٹ میں سے بال اپنی انگلی کی پور پر چپکا کر اوپر اٹھایا ۔۔ اور ماہم کے سامنے کیا۔۔ جبکہ ناک غصے سے پھولی ہوٸ تھی اور ماتھے پر بل تھے۔۔
اوہ۔۔ یہ کہاں سے۔۔۔ ماہا نے ایک دم پریشان ہو کر بال کانوں کے پیچھے کیے۔۔۔ اس نے رف سے طریقے سے بالوں کا جوڑا بنا رکھا تھا جس میں سے اس کے گھنگرالے بال ارد گرد سے باہر نکل رہے تھے۔۔۔
ظاہری بات ہے یار کھانا کھا رہا ہوں اس میں سے نکلا ہے۔۔۔ دانیال نے چہرے پر ناگواری کے تاثر لاتے ہوۓ کہا۔۔۔
سوری سوری۔۔۔۔ میں نے بال باندھے تو تھے۔۔۔ ماہم ایک دم سے کرسی پیچھے دھکیلتی ہوٸ اٹھی تھی۔۔۔ اور جلدی سے دانیال کے سامنے سے پلیٹ اٹھاٸ تھی۔۔
ان کی شادی کو دو ماہ ہو چکے تھے اور ان دو ماہ میں یہ بات تو وہ اچھے سے سمجھ چکی تھی کہ دانیال بہت صفاٸ پسند ہے۔۔۔۔
ان کپڑوں میں۔۔۔دانیال نے بھنویں اچکا کر اس کے سراپے کو دیکھا تھا۔۔۔
وہ دانیال کی ٹی شرٹ کے نیچے اپنا لوز ٹرایوزر پہنے ہوۓ تھی۔۔۔
تو کیا ہے۔۔۔ بچوں کی طرح ہونٹ باہر نکالتے ہوۓ کہا۔۔
یار یہ صرف میرے سامنے ۔۔۔۔۔ محبت سے ماہا کا گال تھپتھپایا تھا
مجھے پتا ہے تم نے بچوں کی طرح کار سے باہر آ جانا اور پھر میرے دماغ کی پھرکی گھوم جاتی ہے۔۔۔۔ دانیال نے کندھوں سے پکڑ کر واش روم کی طرف دھکیلا جب کے وہ بچوں جیسی شکل بناۓ جا رہی تھی۔۔۔
************
دوسری طرف بھی خاموشی چھا گٸ تھی۔۔۔
ہم۔م۔م۔م۔ اتنا غصہ۔۔۔ کیسے کم ہو گا یہ ۔۔ کچھ دیر بعد دانیال کی شرارت بھری آواز پھر سے ابھری تھی۔۔۔
رات کے بارہ بجے کیسے بھی کم نہیں ہو گا۔۔۔ ماہا نے بھاری آواز میں مگر غصے سے کہا۔۔۔
اچھا یہ بات ہے۔۔۔ دانیال اٹھ کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔
ٹھیک ہے پھر آٸسکریم کھانے کا پروگرام کینسل کرتا ہوں۔۔۔ دانیال نے ایک شوخ نظر ماہا پر ڈال کر کہا۔۔۔
اب ایسی بھی کوٸ ناراض نہیں ہوں میں۔۔۔ تھوڑی دیر کی خاموشی کے بعد وہ آنسو پونچھتی ہوٸ اٹھی تھی۔۔
گڈ پھر جلدی سے اٹھ جاٶ۔۔۔ دانیال نے قہقہ لگاتے ہوۓ کہا۔۔۔
چلیں۔۔۔ وہ جلدی سے بچوں کی طرح خوش ہوتی ہوٸ چپل پہننا شروع ہو گٸ تھی۔۔۔
ماہا ایک دم دہل گٸ تھی ۔۔۔ جلدی سے ڈر کر فون ایک طرف رکھا۔۔۔
آنسو ٹپ ٹپ بہنا شروع ہو گۓ تھے۔۔۔
ھاتھ مت لگاٸیں۔۔۔ دانیال کے ہاتھ کو زور سے جھٹکا تھا۔۔۔ جو اس نے آنکھوں سے بازو ہٹا کر دیکھنے کے لیے رکھا تھا۔۔۔
اوہ تو جاگ رہی ہو ۔۔ میں سمجھا سو گٸ۔۔۔ دانیال نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا۔۔۔
وقت دیکھیں پہلے۔۔۔ ماہا نے ناک پھلا کر کہا اور رخ دوسری طرف موڑ لیا۔۔۔
سارا وقت تمھارا۔۔۔ اس کے بازو پر تھوڈی اٹکا کر دانیال نے محبت بھرے لہجے میں کہا۔۔۔
کوٸ وقت نہیں ہے سارا وقت اماں کا اور دوستوں کا ہے۔۔۔ ما ہا نے غصے سے کہا اور زور سے بازو کو جھٹکا دیا۔۔۔
ماہا۔۔۔ اماں کو بیچ میں مت لاو۔۔۔ دانیال نے ضبط سے ماتھے پر ہاتھ پھیرتے ہوۓ کہا۔۔۔
نہیں آپ آٸیں بس ۔۔۔ آج تین دن ہو گۓ یہی کام ہے بس ۔۔۔ ماہا نے غصے سے اونچی آواز میں کہا تھا۔۔۔
ان کی شادی کو ایک ماہ دس دن ہو چکے تھے۔۔۔ اس وقت اماں سو جاتی تھیں۔۔۔ اور دانیال نے چار دن سے دوستوں کی طرف زیادہ دیر بیٹھنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ جس پر اب ماہا کی برداشت جواب دے گٸ تھی۔۔۔
ارے یار تم سو جاٶ نہ۔۔۔ محبت سے پچکارنے کے انداز میں کہا۔۔۔
نہیں آتی مجھے نیند۔۔۔ ماہا نے پاس پڑے تکیہ کو زور سے ایک طرف اچھالا تھا۔۔۔
دل چاہ رہا تھا جاۓ اور بازو پکڑ کر دانیال کو وہاں سے لے آۓ اور روز کی طرح اس کے سینے پر سر رکھ کر سو جاۓ۔۔۔ عجیب قسم کا غصہ آ رہا تھا اسے۔۔۔
ماہا اب تم بے جا ضد کر رہی۔۔۔ دانیال نے سمجھانے والے انداز میں کہا۔۔۔
سوچتے ہوں گے۔۔۔ دانیال نے پھر سے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔
کوٸ کچھ نہیں صرف آپ ہی ایسا سوچتے ہیں۔۔۔ ماہا نے بھی دانت پیستے ہوۓ کہا جبکہ آواز ابھی بھی روہانسی تھی۔۔۔
چلو پھر تم اب لڑ لو بس میری بات نا ماننا۔۔۔۔ دانیال نے خود کو نارمل رکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
میں نہیں لڑ رہی آپ سے۔۔۔ ماہا نے باقاعدہ رونے والی آواز میں کہا۔۔۔
اچھا چلو موڈ ٹھیک کرو۔۔۔ دانیال ایک دم سے نرم پڑا تھا۔۔۔
آٸسکریم کھاٶ گی۔۔۔ محبت سے کہا۔۔۔
اچھا یار غصہ ختم کرو۔۔۔ ایک ہاتھ سے سٹرینگ پکڑ کر دوسرے ہاتھ سے ماہا کے ہاتھ کو اپنے سینے پر رکھا تھا۔۔۔
*************
ماہا۔۔۔ کیوں کر رہی ہو بار بار کال۔۔۔ دانیال نے چڑنے جیسی آواز میں کہا۔۔۔
گھر آٸیں۔۔۔ ماہا نے رعب سے کہا تھا۔۔۔
ارے یاربتایا تو ہے۔۔۔ آذر کے گھر ہوں۔۔۔ دانیال نے پھر سے چڑ کر کہا تھا۔۔
جی۔۔۔ اپنی اس تزلیل پر وہ بڑی مشکل سے آنسو روک پاٸ تھی۔۔۔ اور مدھم گھٹی سی آواز میں کہا
وہ زبردستی مسکراتی ہوٸ مسز خاور کے ساتھ بیٹھی تھی
منہ کس بات پر بنا ہوا ہے۔۔۔ دانیال نے گاڑی چلاتے ہوۓ محبت سے دیکھا تھا
کسی بات پر نہیں۔۔۔ ماہا نے غصے سے رخ دوسری طرف موڑا تھا۔۔۔
ارے یار غلط بات تھی وہ۔۔۔ زبان میں مٹھاس بھر کر کہا۔۔۔
غصہ اب اتر چکا تھا ۔۔ لیکن ماہم کا پھولا ہوا منہ اب اسے تکلیف دے رہا تھا۔۔۔
دانی ۔۔ بچے مجھے ضد سے لے کر گۓ تھے۔۔۔ مجھے اچھا لگتا ان کے ساتھ کھیلنا۔۔۔ ماہا نے روہانسی آواز میں مگر غصے سے کہا۔۔۔
پر یار ۔۔۔ مجھے نہیں اچھا لگتا۔۔۔ وہ اتنے ڈیسنٹ لوگ ہیں کیا سوچتے ہوں گے۔۔۔ دانیال نے پھر سے ماتھے پر بل ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔
کوٸ کچھ نہیں صرف آپ ہی ایسا سوچتے ہیں۔۔۔ ماہا نے بھی دانت پیستے ہوۓ کہا جبکہ آواز ابھی بھی روہانسی تھ
یار کیا کر رہی ہو۔۔۔ تم یہاں بچوں کے ساتھ کھیلے جا رہی ہو مسز خاور اکیلی بیٹھی ہیں۔۔۔ دانیال ماتھے پر بل ڈالے اسے ڈانٹنے کے انداز میں کہہ رہا تھا
وہ ۔۔ میں سوری ۔۔۔ دانیال کو ایک دم آج اتنے غصے میں دیکھ کر وہ پریشان سی ہو گٸ تھی۔۔۔
ان کی شادی کو پندرہ دن گزر چکے تھے اور ان پندرہ دنوں میں دانیال نے اسے اتنی محبت سے نوازہ تھا کہ وہ ہواٶں میں اڑنے لگی تھی۔۔۔
کبھی کبھی تھوڑا سا ڈانٹ دیتا تھا لیکن وہ بھی نرم سے لہجے میں۔۔۔ وہ اتنی خوش تھی کہہ گھر میں بھی وہ لاڈلی رہی تھی اور اب دانیال بھی اس کے ہر وقت لاڈ اٹھاتا تھا۔۔ لیکن آج تو اس کا انداز ہی اور تھا۔۔۔
چلو اب اندر ۔۔۔ دانیال نے دانت پیستے ہوۓ گھور کر کہا تھا۔۔۔
یار کیا ہو تم۔۔۔ چھوڑو اب یہ بچپنا۔۔۔ وہ دانیال کے ساتھ چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی جا رہی تھی جب دانیال نے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain