Damadam.pk
Ambreen@'s posts | Damadam

Ambreen@'s posts:

Ambreen@
 

دانیال پلیز۔۔۔ ماہم نے دونوں ہاتھ کمر کے پیچھے چھپا لیے تھے۔۔۔
اچھا۔۔۔ مجھے اپنے طریقے آتے ہیں پھر روکو ذرا تم ۔۔۔ دانیال نے شرارت سے اس کی بچوں جیسی حرکت دیکھی۔۔۔
اور پھر اچھل کر بیڈ پر آیا تھا۔۔۔ ماہا زور زور سے مصنوعی چیخیں مار رہی تھی لیکن دانیال پر کوٸ اثر نہیں ہوا تھا اس نے زبردستی ناخن کاٹ کر ہی دم لیا تھا۔
******************
ماہا ۔۔ ماہا۔ ۔۔۔ دانیال نے غصے سے لان میں بچوں کے ساتھ کھیلتی ماہا کو آواز دی تھی۔۔
آج دانیال کی ان کے باس کے ہاں شادی کی دعوت تھی۔۔۔ دانیال کی اپنے باس کے ساتھ اچھی دوستی بھی تھی۔۔ تو اس نے آج ان کو شادی کی دعوت دی تھی۔۔۔ ماہا ہمیشہ کی طرح بچوں کے ساتھ بچہ بن گٸ تھی۔۔۔
جی۔۔۔ ماہا نے ہنستے ہوۓ گیند ہوا میں اچھالی تھی اور دانیال کے پاس آٸ تھی۔۔۔

Ambreen@
 

تم کس کی ہو ۔۔۔ میری ۔۔۔ دانیال نے پیار سے اس کے بالوں کی لٹ کو پیچھے کیا۔۔۔
ان کی شادی کو آج تین دن ہو چکے تھے ان تین دنوں میں وہ ایک دوسرے کے بہت قریب آ چکے تھے۔۔۔
تو یہ ہاتھ بھی میرے۔۔۔ چلو اب اٹھو کاٹو ان کو۔۔۔ دانیال نے پیار سے اس کے ہاتھ پکڑتے ہوۓ کہا۔۔۔
اتنی محنت سے بڑھاۓ ہیں ایسے کیسے کاٹ لوں بھلا۔۔۔ ماہا اس کی سنجیدگی دیکھ کر روہانسی ہو گٸ تھی۔۔۔
کیا مطلب کیسے ۔۔۔ دانیال نے بھنویں اچکاٸ تھیں۔۔۔
دانیال مجھے بہت پسند ہیں ۔۔ بچوں کی طرح التجا کی تھی۔۔۔
مجھے نہیں پسند اٹھو کاٹو ان کو۔۔۔ دانیال نے اب کی بار تھوڑی سختی سے کہا تھا۔۔۔
وہ ہنوز خفا سی شکل لیے بیٹھی رہی ۔۔۔
ٹھیک ہے میں ہی کاٹ دیتا ہوں۔۔۔ دانیال اٹھ کر اب سنگہار میز کے دراز کو کھول رہا تھا۔۔ پھر اس میں سے نیل کٹر لے کر اس کی طرف بڑھا تھا۔۔

Ambreen@
 

تمھارے ہیں۔۔۔۔۔ دانیال ایک دم اچھل کر بیٹھا تھا۔۔۔
جی۔۔۔۔ ماہا نے حیرت سے اس کے چہرے ہر پھیلتی ناگواری کو دیکھا۔۔۔
چڑیل ہو کیا ۔۔۔ خون پیتی ہو۔۔۔ دانیال نے خود پر ضبط کر کے شرارت کے انداز میں کہا۔۔۔
ابھی تک تو کسی کا نہیں پیا لیکن آپکا پی سکتی ہوں۔۔۔ ماہا نے بھی شرارت سے ہی جواب دیا۔۔۔
کاٹو ان کو۔۔۔ دانیال نے رعب سے کہا تھا۔۔۔۔
کیوں بھٸ مجھے پسند ہیں۔۔۔ ماہا نے بچوں کی طرح خفا سی شکل بنا کر کہا۔۔۔
اسے اپنے ہاتھ پر ناخن بہت اچھے لگتے تھے وہ ان کا بہت خیال بھی رکھتی تھی۔۔۔صاف رکھتی تھی فاٸلنگ کرتی تھی باقاعدگی سے
ارے مجھے پسند نہیں ہیں۔۔۔ دانیال نے اس کے ہاتھ کو خفا سی شکل بنا کر ایک طرف کیا تھا
تو آپکے تھوڑی ہیں۔۔۔ ماہا ابھی بھی اس بات کو مزاق میں ہی لے رہی تھی۔۔۔ اس نے کبھی باسط کے ڈانٹنے پر نہیں کاٹے تھے ناخن تو اب کیا کاٹنے تھے

Ambreen@
 

ماہا دھیرے سے مسکرا دی تھی۔۔۔ ساری غلط فہمی ایک دن میں ہی دل سے دھل گٸ تھی۔۔۔ دانیال اتنا بھی کھڑوس نہیں تھا۔۔۔ اس نے آنکھیں اٹھا کر سامنے محبت سے دیکھتے دانیال کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
تم میری زندگی میں آنے والی پہلی لڑکی ہو۔۔۔ اماں سے بہت محبت ہے مجھے ۔۔۔ اس کے بعد تم سے۔۔۔ وہ اپنی بھیگی سی آواز میں اسے بہت سی باتیں بتا رہا تھا۔۔۔ اور اس کے ہاتھوں کے ساتھ کھیل رہا تھا۔۔۔
اور وہ کھوٸ کھوٸ سی اپنے دل کے بادشاہ کی باتوں کو سن رہی تھی۔۔۔۔
| *************
یہ ناخن کب اتارنے ہیں۔۔۔ دانیال نے اپنے بالوں میں ماہا کے پھرتے ہاتھ کو پکڑ کر آگے کیا تھا۔۔۔
کیوں ۔۔۔ اتارنے کیوں میرے اپنے ہیں۔۔۔ ماہا نے مدھر سا قہقہ لگا کر کہا تھا۔۔۔

Ambreen@
 

ماہا اس کی آواز کے جادو میں خوشگوار حیرت لیے گنگ بیٹھی تھی۔۔ ولیمے کی تقریب پر بار بار دوستوں کے اسرار پر اس نے اپنے شوق کو سب پر ظاہر کیا تھا۔۔۔
اور گانا اس کے ماہا کے لیے جزبات کی عکاسی کر رہا تھا۔۔۔
ماہم سے پہلے اس نے کسی بھی لڑکی کے بارے میں نہ ایسا محسوس کیا تھا اور نہ اس نے کبھی کوشش ہی کی تھی۔۔
وہ تو کسی لڑکی سے عشق کرنے کا قاٸل ہی نہیں تھا ۔۔۔ اور آج اس لڑکی کے آگے گھٹنے ٹیک چکا تھا جو کل رات ہی اس کی زندگی میں شامل ہوٸ تھی۔۔۔
آپ کی آواز بہت اچھی ہے۔۔۔ بیڈ پر اس کے سامنے بیٹھی وہ مدھر سی آواز میں گویا ہوٸ تھی۔۔۔
تمھاری بھی۔۔۔ دانیال نے دھیرے سے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔

Ambreen@
 

قسط نمبر3
پارٹ ٢
دھوپ میں جلتے ہوۓ تن کو۔۔۔چھایا پیڑ کی مل گٸ۔۔
روٹھے بچے کی ہنسی جیسے۔۔۔۔پھسلانے سے پھر کھل گٸ
کچھ ایسا ہی اب محسوس دل کو ہو رہا ہے۔۔۔۔
برسوں کے پرانے زخم پر مرہم لگا سا ہے۔۔۔
کچھ ایسا اہم اس لمحے میں ہے۔۔۔ یہ لمحہ کہاں تھا۔۔۔ میرا۔۔۔۔۔۔
اب ہے سامنے اسے چھو لوں ذرا۔۔۔ مر جاٶں یا جی لوں ذرا۔۔۔
خوشیاں چوم لوں۔۔یا رو لوں ذرا۔۔۔
دانیال کی گٹار پر چلتی انگلیاں اور اس کی آواز پورے میرج ھال میں گونج رہی تھی۔۔۔
لیکن اس کی آنکھیں محبت سے لبریز بار بار ہلکے گرے رنگ کے دلکش جوڑے میں ملبوس ماہم کا طواف کر رہی تھی۔۔۔

Ambreen@
 

کسی کی تہجد بھی کام نہیں آتی،
اور کسی کی قضا بھی قبول ہو جاتی ہے !!💯🖤

Ambreen@
 

انا پرستوں کو عشق ہوجائے نا
تو سمجھ لینا بددعا لگی ہے 🔥.

Exactly..😏😏
A  : Exactly..😏😏 - 
Ambreen@
 

Muhh Laga Leti Hun Kafi Nhe..
Dil Nhe Lgati Main Mazrat.. 😏😏

Ambreen@
 

Muhh Sy Momin..
Dilon K Firun log..😏😏

Ambreen@
 

جی۔۔۔ وہ ایک دم جھینپ سی گٸ تھی ابھی تو صبح والی
جسارت پر دل صیح سے قابو میں نہیں آیا تھا۔۔
آج بھی پنز اتارنی پڑیں گی کیا۔۔۔ تھوڑا سا جھک کر شرارت سے کہا تھا۔۔۔
پتہ نہیں۔۔۔ ماہم نے زور سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کی تھیں۔۔۔
ہم۔م۔م۔ تو پھر زیادہ لگوانا پنز۔۔۔ دانیال نے بھیگی سی آوز میں کان کے قریب سرگوشی کی تھی۔۔۔
اوہ۔۔ ماہم تیزی سے دل کو سنبھالتی باہر کی طرف بھاگی تھی۔۔۔
جبکہ عقب سے آتا دانیال کا قہقہ اس کے لبوں پر مسکراہٹ بکھیر رہا تھا۔۔۔
****

Ambreen@
 

ایسے کیسے رکھ رہی ہو۔۔۔ دانیال نے ناگوار سی نظر اس کے اس طریقے پر ڈالی تھی۔۔۔
کہ کیا۔۔ مطلب ۔۔۔ وہ ایک دم سے جز بز سی ہو کر رکی تھی۔۔۔
مطب ان کو ذرا ترتیب سے رکھو۔۔۔ رعب دار آواز میں دانیال نے کہا تھا۔۔۔
بعد میں رکھ لوں گی۔۔۔ ماہم نے دھیرے سے لاپرواہی کے انداز میں دراز بند کر دیا تھا۔۔۔
ماہم جلدی کرو پارلر جانا ہے۔۔۔ فروا دروازہ بجا تی ہوٸ اندر آٸ تھی۔۔۔
رہنے دو ایسے ہی بہت پیاری لگ رہی یہ۔۔ دانیال نے شرارت سے کہا۔۔۔
اچھا۔۔۔ تمہی کو صرف نہیں دیکھنا اسے باقی بھی بہت سے لوگوں نے دیکھنا ہے۔۔۔ ولیمہ ہے آج۔۔۔ فروا نے قہقہ لگایا تھا۔۔۔
ماہم آ جاٶ جلدی سے۔۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔۔۔ فروا تیزی سے کہتی ہوٸ باہر کی طرف بڑھی تھی۔۔۔
سنو۔۔۔ دانیال نے بیگ اٹھاتی ماہم کے قریب آ کر شرارت سے کہا تھا۔۔۔

Ambreen@
 

لرزتی سی آواز میں ماہم نے کہا تھا ۔۔ دانیال تو جیسے گال سے ہاتھ اٹھانا بھول چکا تھا۔۔۔
آذان کی آواز پر وہ ایک دم سے پیچھے ہوا تھا۔۔۔
ماہا نے اٹکی ہوٸ سانس بحال کی تھی جو اس کی جسارت پر لمحہ بھر کو تھم سی گٸ تھی۔۔۔
دانیال تیزی سے اٹھ کر واش روم کی طرف بڑھ گیا تھا ۔۔۔
جبکہ وہ ابھی بھی بے ترتیب دھڑکنوں سمیت اسی لمس کو محسوس کر رہی تھی۔۔۔
*****************
ماہم۔۔ یہ تم چیزیں سمیٹ لو ۔۔۔ دانیال نے ناگواری سے سارے دن کے بکھری ہوٸ اس کی چیزوں کی طرف دیکھ کر کہا جو صبح سے اسی انداز میں ڈریسنگ میز پر بکھری ہوٸ تھیں۔۔۔
اوہ ۔۔۔ اچھا۔۔۔ وہ جو ابھی سو کر اٹھی تھی پریشان سی ہوی پاس آٸ تھی۔۔اور جلدی سے سارا کچھ اتنے برے طریقے سے میز کے دارز میں رکھنے لگی تھی۔۔۔

Ambreen@
 

ماہم کا شرمانہ ایک دم سے جیسے ختم ہوا تھا۔۔۔ دانت پیس کر پوچھا۔۔۔
ہم۔م۔م۔م مجبوری تو بہت سنگین تھی۔۔۔ لیکن تمہیں سمجھ نہیں آۓ گی۔۔۔ دانیال نے مسکراہٹ دباتے ہوۓ اس کا لال ہوتا چہرہ دیکھا تھا۔۔۔
میں اتنی بیوقوف نہیں ہوں۔۔۔ ناک پھلا کر دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔۔
پھر کتنی ہو۔۔۔ دانیال نے ایک دم سے اس کے گود میں رکھے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لیا تھا۔۔۔
ماہم نے ایک دم سے زور سے آنکھیں بند کی تھیں۔۔۔
کتنی بھی نہیں۔۔۔ لرزتی سی شرماٸ ہوٸ گھٹی سی آواز نکل پاٸ تھی جبکہ دانیال کے مضبوط ہاتھ میں اس کا نازک سا ہاتھ کانپ رہا تھا
چلو مان لیا۔۔۔ دانیال کو اس کی غیر ہوتی حالت پر پیار آ گیا تھا۔۔۔
یہ کیا ہوا ہے۔۔۔ اچانک ماہم کی گال پر پڑے نشان پر نظر گٸ تو بے ساختہ پریشان ہو کر دانیال نے اپنی ہتھیلی اس کے گال پر رکھی تھی
شاٸد وہ دوپٹہ گال کے نیچے آ گیا تھا

Ambreen@
 

جی۔۔۔ وہ اس کے اتنا قریب آ جانے پر جھنیپ گٸ تھی۔
پھر انکار کیوں نہیں کیا تھا۔۔۔ دانیال نے آنکھیں سکیڑ کر مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا ۔۔۔
ہمت ہی نہیں ہوٸ۔۔۔ گھٹی سی مدھم سے آواز نکلی تھی ماہم کی۔۔۔
کیوں ۔۔۔ ماہم کے دوپٹے کے پلو کو ہاتھ میں لے کر جزبات میں بھیگتی ہوٸ آواز میں کہا۔۔۔
جیسے آپکی نہیں ہوٸ تھی۔۔۔ ماہم کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ آخر کو کس طرف نظر اٹھا کر دیکھے ۔۔ اول توپلکیں اتنی بھاری ہو رہی تھیں۔۔۔۔ کہ اٹھنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔۔
مجھے تو کرنا ہی نہیں تھا انکار۔۔۔ دانیال نے محبت سے اس کے چہرے کا طواف کرتے ہوۓ شرارت سے کہا۔
کیوں۔۔۔ دھڑکتے دل کے ساتھ پوچھا۔۔۔ کوٸ لڑکی جتنی بھی پٹاخہ کیوں نہ ہو یہ لمحہ ہی ایسا ہوتا کہ سوری بہادری زمین بوس ہو جاتی ہے۔۔
سوچا برداشت کر ہی لیتا ہوں ۔۔۔ دانیال نے شرارت سے کہا
ایسی بھی کیا مجبوری تھی

Ambreen@
 

وہ سرخ ڈبی میں سے نکلے نکلیس نما باریک چین کو ہاتھوں میں ڈالے دیکھ رہا تھا جب وہ دھلے منہ اور سادہ سوٹ میں ملبوس باہر نکلی تھی۔۔۔
بیٹھو۔۔۔ دانیال نے پیچھے ہوتے ہوۓ اپنے ساتھ جگہ بناٸ تھی ۔۔۔
وہ جز بز سی ہوتی دونوں لبوں کو بھینچے بیٹھ گٸ تھی۔۔۔
یہ منہ دکھاٸ۔۔۔ دانیال نے چین آگے بڑھاتے ہوۓ مدھم لہجے میں کہا تھا۔۔۔
اتنا تو پتا نہیں کھڑوس کو ۔۔۔ خود پہناتے ہیں ۔ ماہم نے کڑھ کر سوچا اور چین پکڑ لی۔۔۔
اسے رکھنا ہے یا پہننا ہے۔۔۔ ماہم نے مدھر سی آواز میں کہہ کر خاموشی کو توڑا تھا۔۔۔
تمھاری مرضی۔۔۔ بھرپور نظر ماہم کے دھلے ہوۓ شفاف دلکش چہرے پر ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔
ماہم نے چین کو گلے میں ڈال کر آگے گھوما کر بند کیا۔۔۔
ہم۔م۔م۔ایک بات پوچھوں۔۔۔ دانیال ایک دم سے قریب ہوا تھا۔۔۔
جی۔۔۔ وہ اس کے اتنا قریب آ جانے پر جھنیپ گٸ تھی۔

Ambreen@
 

دل کی دنیا اتھل پتھل ہو کر رہ گٸ تھی۔۔۔
اور بھی مدد چاہیے ہے کیا پنز تو اتر گٸ ہیں ۔۔۔ دانیال کی شرارت بھری آواز پر جیسے ہتھیلیاں ہی بھیگ گٸ تھی۔۔۔
نہ۔۔نہیں۔۔۔ لڑکھڑاتی آواز میں بس اتنا ہی کہہ کر وہ تیزی سے الماری کی طرف بڑھی تھی۔۔۔ جبکہ دانیال اپنی ہنسی چھپاتا ہونٹوں پر انگلیاں رکھے وہیں کھڑا تھا۔۔
اوہ ۔۔۔ واش روم کی کنڈی اڑا کے وہ ایک دم سے دروازے کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑی تھی۔۔۔ یہ کیا ہے سب۔۔۔ اپنی غیر ہوتی حالت خود کو ہی سمجھ نہیں آ رہی تھی۔۔۔ پھر دانیال کے آخری فقرے کو یاد کر کے پھر سے ہتھیلیوں میں منہ چھپا لیا تھا۔۔۔
اچانک نظر سامنے سنگہار میز پر گٸ تو جیسے دانیال کا سر گھوم گیا ہر چیز اتار اتار کر یوں پھینک کر گٸ تھی۔۔۔
اپنی صفاٸ اور سلیقہ پسندی کی پھڑکتی رگ کو بامشکل ضبط کرتا ہوا وہ بیڈ پر آ کر بیٹھا تھا۔۔۔

Ambreen@
 

ایک ہی جست میں وہ بیڈ سے اتر کر نیچے بلکل اس کے پیچھے کھڑا تھا۔۔۔
مۓ ۔۔آٸ۔۔۔ مدھم سے سرگوشی نما آواز ماہم کا دل دھڑکا گٸ تھی۔۔۔ ایک دم وہ ساکت کھڑی رہ گٸ تھی۔۔۔
دانیال اب اس کے دوپٹے کی پنز کھوج کھوج کر اتار رہا تھا۔۔۔ دوپٹے کو پکڑ کر کمر پر لگاٸ گٸ پنز کو دھیرے سے پکڑ کر کھولا تھا۔۔ دوپٹے کے پلو لڑھکتے ہوے دانیال کے پاٶں پر گرے تھے۔۔۔
اب وہ کندھے پر لگی پنز کو کھول رہا تھا۔۔۔
ماہم کی ریڑھی کی ہڈی میں جیسے میٹھے رس کی سوٸیاں چبھنا شروع ہو گٸ تھیں۔۔۔ پلکیں گالوں پر لرزنے لگی تھیں۔۔۔
دانیال نے دھیرے سے اس کا رخ اپنی طرف موڑا تھا۔ ۔۔۔
ماہم نے زور سے آنکھیں بند کی تھیں۔۔۔
دانیال کو اس کے اس انداز پر ہنسی آ گٸ تھی۔۔۔
کیا ہوا کانپ کیوں رہی ہو ۔۔۔ دانیال کی سرگوشی بلکل کان کے پاس ہوٸ تھی۔۔۔
افف ۔۔۔ ماہم کو ایسا لگا ابھی ڈھے جاۓ گی

Ambreen@
 

ماہا نے دوپٹہ بیڈ سے اٹھا کر سمیٹا تھا۔۔۔ چوڑیوں کی کھنک نے کمرے کی خاموشی کو توڑا تھا۔۔۔
دانیال جیسے ایک دم سے ہوش میں آیا تھا۔۔۔ بیڈ پر اٹھ کر بیٹھتے ہوۓ گلے کو مخصوص انداز میں صاف کرتے ہو آواز نکالی ۔۔۔
بیٹھو۔۔ دھیرے سے بھاری آواز میں کہا سونے کی وجہ سے آواز اور بھاری ہو گٸ تھی۔۔
میں چینج کرنا چاہ رہی ہوں بہت تھک گٸ ہوں ۔۔۔ ماہم نے مدھر سی آواز میں کہا۔۔ وہ واقعی بہت تھک چکی تھی اور میک اپ اب الجھن کا شکار کر رہا تھا ۔۔۔
ڈریسنگ میز کے سامنے کھڑے ہو کر وہ الجھ کر رہ گٸ تھی کتنی کوٸ پنز تھیں دوپٹے میں کچھ کمر پر بھی لگاٸ ہوٸ تھیں ان کو کیسے اتاروں وہ روہانسی سی ہو رہی تھی۔۔ اور اتنی بے دردری اور بے ترتیبی سے وہ سب کچھ سنگہار میز پر رکھ رہی تھی۔۔۔
اس کو خود سے ہی گھلتے دیکھ کر دانیال کے ہونٹوں پر بے ساختہ مسکراہٹ بکھر گٸ تھی۔۔۔