زور سے اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا۔۔۔ جلدی سے گردن گھوما کر گھڑی کی طرف دیکھا۔۔۔چار بج رہے تھے۔۔۔ اوہ۔۔۔ پتہ نہیں کب آۓ ہوں گے۔۔ لب دانتوں میں دبا کر سوچا۔۔۔ اور ایک نظر ساتھ لیٹے دانیال پر ڈالی ۔۔۔
محترم ناٸٹ ڈریس میں ملبوس آنکھوں پر بازو ٹکاۓ آرام سے سو رہے تھے۔۔۔
کھڑوس کہیں کا ۔۔۔ ایسی بھی کیا اکڑ اگر سو گٸ تھی تو جگا ہی لیتے۔۔۔
اب دوپٹہ ان کے بازو کے نیچے پھنسا تھا اور ادھر سے اس کے سر پر پنوں سے ٹکا تھا۔ ۔۔ ایک دم سے جو نیچے اترنے کی کوشش کی تو دانیال کے بازو کو جھٹکا لگا تھا اور اس کی آنکھ کھل گٸ تھی۔۔۔
وہ بار بار آنکھیں جھپکتا ہوا سامنے بیڈ کے پاس پریشان سی کھڑی ماہم کو دیکھ رہا تھا لیکن دونوں طرف خاموشی تھی۔۔۔
دانیال کے اچانک اٹھ جانے پہ جیسے جان پسلیوں کے درمیان میں آ کر لرزنے لگی تھی۔۔۔ اور وہ بس دیکھے ہی جا رہا تھا۔۔
دھیرے سے اس کی ایک طرف ڈھلکی بندیا کو اپنے ہاتھوں سے درست کیا تھا۔۔۔
لبوں پر بے ساختہ مسکراہٹ آٸ تھی۔۔۔ عجیب شادی کی پہلی رات ہے میری۔۔۔ میں اپنی سوٸ ہوٸ دلہن کے حسن سے آنکھیں سیک رہا ہوں۔۔۔ ایک دم سے سیدھا ہو کر لیٹ کر سینے پر ہاتھ رکھے۔۔۔
یعنی کے محترمہ کو کوٸ خوشی کوٸ انتظار نہیں تھا۔۔۔ مزے سے سوگیں۔۔۔ آنکھوں پر بازو الٹا کر کے رکھا اور پھر نیند اسے بھی اپنی آ غوش میں سمیٹ چکی تھی۔۔۔
گال پر کچھ تکلیف کے احساس سے آنکھ کھلی تھی ۔۔
افف دھیرے سے آنکھیں کھلی تھیں۔۔۔ اور پھر وہ ایک جھٹکے سے اٹھی تھی۔۔۔
اور اپنے بلکل ساتھ لیٹے دانیال کو حیرانی سے دیکھا۔۔۔
قسط نمبر3
پارٹ ١
ہیر برش کو آہستہ سے سنگہار میز ہر پر بجایا تھا۔۔۔ پر ماہم پر کوٸ اثر نہیں ہوا تھا۔۔۔
لہنگا بیڈ پر پھیلا پڑا تھا۔۔۔ دانیال کمر پر دونوں ہاتھ رکھے پر سوچ انداز میں بیڈ کے پاس کھڑا تھا۔۔۔
پھر اس کے لہنگے کو دھیرے سے ایک طرف سمیٹتے ہوۓ بلاآخر وہ اپنی جگہ بنا ہی چکا تھا۔۔۔
آج پہلی دفعہ زندگی میں اس کے علاوہ ایک اور زی روح اس کمرے میں موجود تھی۔۔ اس کی شریک حیات جس کو اس کی ہی پسلی سے پیدا کیا گیا تھا۔۔۔ اس کے وجود سے اٹھنے والی بھینی بھینی سی خوشبو دل کو بے تاب کر رہی تھی۔۔۔
اب وہ بازو کو فولڈ کیے اپنی ہیتھیلی پر سر ٹکاۓ اس دلکش وجود کو دیکھ رہا تھا جو اس کا تھا پورے کا پورا پر اس کی بے تابی اور بے چینی سے بلکل بے خبر سو رہا تھا ۔۔۔
وہ جو کتنے ہی الفاظ ترتیب دیتے ہوۓ کمرے میں آیا تھا سب کے سب زمین بوس ہو گۓ تھے۔۔۔
وہ اس کا انتظار کرتے کرتے سو چکی تھی۔۔۔ آہستہ سے چلتا ہوا وہ بیڈ کے بلکل قریب آیا تھا۔۔
وہ اپنے ہوش ربا حسن سمیت بھاری پلکوں والی آنکھیں موندے سکون سے سو رہی تھی۔۔۔ ماتھے پر لگی بندیا ایک طرف کو ڈھلک گٸ تھی۔۔۔
مصنوعی کھانسنے کی آواز پر بھی وہ ٹس سے مس نہیں ہوٸ تھی۔۔۔ اتنی گہری نیند سوتی ہے کیا۔۔۔
اب اس کو اٹھانا کیسے ہے۔۔ یا پھر سوتے رہنے دینا زیادہ بہتر ہے۔۔۔ تھک بھی گٸ ہو گی۔۔۔
دانیال نے آگے بڑھ کر اس کے تکیے کو درست کیا تھا۔۔۔ وہ واقعی بہت گہری نیند میں تھی۔۔۔
وہ واش روم سے باہر نکلنے کے بعد بھی شیشے میں اس کے عکس کو بار بار دیکھ رہا تھا۔۔
شیروانی میں وہ نظر لگ جانے کی حد تک دلکش لگ رہا تھا۔۔۔
جی اچھا۔۔۔ ۔ دانیال نے بڑے معودب انداز میں کہا اور نازش کو گلے لگایا۔۔۔
اب جاٶں یا کچھ اور بھی ہے دینے کو۔۔۔ مسکراہٹ دباتے ہوۓ کہا۔۔۔ جب کے آنکھوں میں شرارت بھری تھی۔۔۔
وہ جتنا بھی مضبوط بن لے۔۔۔ اس کے دلکش سراپے نے آج اندر سے ہلا کر رکھ دیا تھا۔۔۔ اس کو ہاتھ پکڑ کر جب سٹیج پر چڑھایا تھا تو وہ جو ایک نظر اس پر ڈال بیٹھا تھا وہ روح میں ہی کہیں گڑ گٸ تھی۔۔۔ اب جب کمرے میں جانا تھا۔۔۔ تو دل بے وجہ ہی بے ترتیب ہو رہا تھا۔۔۔
نہیں جاٶ۔۔۔ نازش نے آنکھوں کے نم کونوں کو صاف کیا اور شرارت سے چپت اس کے کندھے پر لگاٸ۔۔۔
*****************
ہلکی سی دستک کی آواز کے بعد اس نے کمرے کا دروازہ کھولا تھا۔۔۔
خوشبوٶں سےمہکتے کمرے میں بیڈ پر وہ نیم دراز تھی۔۔۔
پاس کھڑے آذر سے کہا۔۔۔
وہ کب سے دوستوں میں گھرا بیٹھا تھا۔۔۔ آذر اور فواد تو جانے ہی نہیں دے رہے تھے۔۔۔
ابھی ہماری ذہنی ہم آہنگی ہوٸ نہیں اور میں جاتے ہی اس پر شوہر کا حق جتا دوں۔۔۔ ابھی تو پتہ نہیں وہ اس زبردستی کے رشتے کو قبول کر بھی پاٸ ہے کہ نہیں۔۔۔ دانیال نے سب کے مشوروں کو بلاۓ طاق رکھتے ہوۓ سوچا تھا۔۔۔
بڑی مشکل سے رات کے دو بجے کے قریب ان کی محفل اختتام کو پہنچی تو وہ نازش کے پاس آیا تھا جو اس کو دیکھتے ہی الماری سے کچھ نکالنے لگی تھیں۔۔۔
دانیال بیٹا۔۔۔ یہ۔۔۔۔ ایک لمبی سی مخملی سرخ ڈبیا انھوں نے دانیال کے ہاتھ میں تھما دی تھی۔۔۔
یہ کیا ہے دانیال نے الٹ پلٹ کر کے نا سمجھی کے انداز میں اسے دیکھا تھا۔۔
دلہن کو دینا ہے یہ اسے منہ دکھاٸ کہتے ہیں۔۔۔ نازش نے ہلکی سی چپت لگاٸ تھی۔۔۔ اور نظر بھر کر اسے دیکھا تھا۔۔۔
۔۔۔ چوڑیوں کی کھنک سے پورا کمرہ گونج اٹھا تھا۔۔۔
سرخ رنگ کے بھاری کام والے لہنگے میں وہ غضب ڈھا رہی تھی۔۔۔لیکن جس کے لے ڈھا رہی تھی وہ تو آ ہی نہیں رہا تھا۔۔۔ اماں کی پسند جو ٹھہری۔۔۔ ماہم کا دل ایک دم سے ڈوبا تھا۔۔۔ جو بھی تھا جب سے نسبت طے ہوٸ تھی تب سے دانیال کے نام پر بھی دل دھڑک جاتا تھا۔۔۔ اور اب نکاح کے بعد جب وہ پوری طرح اس کی بن کر کمرے میں بیٹھی تھی تو دل اور بھی اس کی محبت میں سرشار ہو رہا تھا ۔۔۔
پتہ ہی نہ چلا کب انھیں سوچوں میں گم اس کی آنکھ لگ گٸ تھی۔۔۔
***************
نہیں تم اپنے مشورے اپنے پاس ہی رکھو۔۔۔ دانیال نے قہقہ لگاتے ہوۓ پاس کھڑے آذر سے کہا۔۔۔
افف تھک گٸ ہوں اب تو۔۔۔ ماہم نے روہانسی سی شکل بنا کر کوٸ ہزراویں دفعہ کمرے کا جاٸزہ لیا تھا۔۔۔
جتنا خوبرو دانیال فراست خود تھا۔۔ اس کے کمرے کی ہر چیز بھی اس کے سیلقے اور ذوق کے مطابق تھی۔۔ ہر چیز ترتیب سے پڑی تھی۔۔۔ صاف ستھرا کمرہ تھا۔۔۔
اچانک اسے اپنا کمرہ یاد آ گیا تھا۔۔۔ اسے تو کوٸ چیز بھی ترتیب سے رکھنے کی عادت ہی نہیں تھی۔۔۔ وہ تین بھاٸیوں کے بعد بڑی منتوں مرادوں پر لاٸ گٸ اکلوتی بیٹی تھی اپنے ماں باپ کی ۔۔ لاڈ میں پلی تھی۔۔۔ بے ترتیبی ۔۔۔ سستی۔۔۔ لاپرواہی اس میں کوٹ کوٹ کر بھری تھی۔۔۔
اتنے بھاری لہنگے میں اور اتنے بھاری زیور کے ساتھ اتنا میک اپ کیے وہ کب سے بیڈ پر بیٹھی دانیال کا کمرے میں آنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔ اور وہ تھا کہ آنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔۔۔
اپنی کمر کے پیچھے اس نے تکیے درست کیے تھے۔۔۔
اور پھر صبح آفس میں جا کر میں صیح سے کام ہی نہ کر پاٶں۔۔۔ بڑے انداز سے کندھے اچکا کر ہونٹوں کو بے نیازی سے باہر نکالتے ہوۓ کہا۔۔۔
بڑی بات ہے جناب۔۔۔ فروا نے شرارت سے کہا۔۔۔ اور بےیقینی میں قہقہ لگایا تھا۔۔۔
نہ کرو یقین تم خود اسے فون کرو اور پوچھ لو۔۔۔ کہ ماہم باسط ۔۔۔ تمہیں کبھی دانیال فراست کی کال آٸ۔۔۔ خود بتاٸ گی تمھیں وہ۔۔۔ دانیال نے پھر سے سیب کا کش منہ میں رکھا۔۔۔
وہ خود بھی کون سا بات کرنا چاہتی ہو گی مجھ سے زبردستی تو بے چاری کی شادی ہو رہی مجھ سے۔۔۔ وہ تو شکر شکر کرتی ہو گی کہ میں فون نہیں کرتا اسے۔۔۔ فروا نہیں میں سر ہلاتی ہنس رہی تھی اور وہ دل میں سوچ رہا تھا جب کہ ہونٹوں پر ایک طنزیہ سی مسکراہٹ تھی۔۔۔
ہو سکتا ہے آمنے سامنے بات کرنا چاہتے ہوں گے۔۔۔ ارسہ نے قہقہ لگا کر کہا
ہم ۔م۔م۔ ہوسکتا ہے۔۔۔ ماہا نے بے دلی سے فالٸر ایک طرف رکھا۔۔۔
کھڑوس کہیں کا۔۔۔ منہ میں غصے سے بڑبڑاٸ تھی وہ۔۔
***********
تمھیں پتہ ہے میں ایسا ہوں ہی نہیں۔۔۔ سیب کے سلیقے سے کٹے ہوۓ کش کو سلیقے سے منہ کہ اندر رکھتے ہوۓ دانیال اپنے مخصوص سنجیدہ انداز میں گویا ہو ا تھا۔۔۔
جھوٹ بولتے ہو کرتے تو ہو گے بات۔۔۔۔ فروا نے آنکھ مار کر شرارت سے کہا۔۔۔
وہ دانیال کو چھیڑ رہی تھی کہ وہ ماہم سے بات کرتا ہے۔۔۔
نہیں ۔۔۔ میرے پاس اس کا نمبر تک نہیں۔۔۔ مجھے ایسے رات رات بھر فضول میں جاگ جاگ کر باتیں کرنا انتہاٸ کو بیوقوفوں والا کام لگتا۔۔۔ دانیال نے ہلکے سے مسراتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
ایسی گری پڑی ہوں جو میں فون کروں۔۔۔ جب ان کا دل ہی نہیں تو میں کیوں کروں۔۔۔
ارے اب کچھ دن ہی تو رہ گۓ ہیں شادی کو۔۔۔ ارسہ نے اس کا کندھا ہلایا تھا ۔۔
ماہم ایک دم سے خیالوں سے باہر آٸ تھی۔۔۔
ہاں لیکن ایسی بے تابی لڑکے وہاں دکھاتے جہاں ان کی پسند کی شادی ہو۔۔۔ سپاٹ چہرے سے کہا۔۔۔ اور اپنے بڑے بڑے ناخن تراشنے لگی۔۔۔
یہاں بس دھونس جمانا تو اچھے سے آتا نواب کو۔۔۔ دانت پیس کر وہ ڈانس والا واقع یاد کیا جب بڑا حق جماتے ہوۓ اسے ڈانس کرنے سے منع کر دیا تھا۔۔۔۔ لیکن اب رشتہ ہوتے ہوۓ بھی ایک دن بھی اس سے بات نہیں کی تھی۔۔۔
کتنا دل کرتا تھا وہ اس سے رات رات بھر باتیں کرے۔۔۔ اپنی بے تابیاں بتاۓ۔۔۔ اس کے حسن کی تعریفیں کرے۔۔۔ شادی کے بعد کی کچھ منصوبے بناٸیں۔۔ لیکن یہاں تو شاٸد جناب کے پاس اس کا نمبر تک نہیں ہو گا۔۔۔
ہو سکتا ہے آمنے سامنے بات
نہیں جی مجھے بھی کوٸ شوق نہیں چڑھا۔۔۔۔ ماہم نے گھور کر ارسہ کو دیکھا تھا۔۔۔
میں اس اکڑو کو خود فون کروں۔۔۔ اپنے مشورے اپنے پاس رکھو۔۔۔ماہم نے ماتھے پر بل ڈال کر دانت پیستے ہوۓ غصے سے کہا۔۔۔
ماہم اور دانیال کی شادی کی تیاریاں عروج پر تھیں۔۔ نسبت کی رسم ہو ماہم کا تو بہت دل تھا اس میں پر دانیال نے منگنی کرنے سے انکار کر دیا بقول اس کے یہ فضول رسم ہے بس بات پکی ہو گٸ ہے یہ بہت ہے۔۔۔ ماہم کا دل اس خبر پر برے طریقے سے کٹا تھا اسے بھی سب لڑکیوں کی طرح شوق تھا اس کی نسبت کا بڑا سا فنگشن ہوتا اس میں دانیال اس کی انگلی میں اپنے نام کی انگوٹھی پہناتا لیکن یہاں تو محترم نے سرے سے منع ہی کر دیا تھا ۔۔۔ اور اب ارسہ کا کہنا تھا کہ میں اسے خود فون کروں اگر وہ نہیں کرتا۔۔۔ کیوں میں کوٸ ایسی گری پڑی ہوں جو میں فون کروں۔۔۔ جب ان کا دل ہی نہیں تو میں کیوں
دانیال آپ بھی ساتھ آ کر بیٹھو۔۔۔ شازیہ نے اب دانیال کو رسم کرنے کے لیے بلایا تھا۔۔۔
جی۔۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔ دانیال نے جز بز سا ہو کر نازش کی طرف دیکھا تھا۔۔۔
وہ پہلے ہی نازش کو کہہ چکا تھا کہ میری کسی قسم کی کوٸ رسم نہیں ہو گی۔۔۔آپ بس ماہم کی رسم کرۓ گا۔
2
لیکن یہاں تو پھر اس کو ساتھ بیٹھنے کے لیے بلایا جا رہا تھا۔۔۔سر کے پیچھے خارش کرتا ہوا وہ تھوڑا فاصلہ دے کر بیٹھ گیا تھا۔۔۔
اکڑ تو دیکھو جناب کی۔۔۔ ماہم کو اس کا یوں دور ہو کر بیٹھنا عجیب طرح سے لگا تھا۔۔۔ صیح کہہ رہے تھے میں صرف ان کی اماں کی پسند ہوں اور کچھ بھی نہیں ۔۔۔ ایک دم سے دل بجھ سا گیا تھا۔۔۔
ہم۔م۔م تو محترمہ صرف مجبور ہی ہیں۔۔۔ رسم کے دوران پھر چور سی نظر اپنے ساتھ بیٹھی ماہم پرڈالی تھی جو اب پریشانی سے لب کچل رہی تھی۔۔۔
پاگل کہیں کی۔۔۔ اس کے سر پر ہلکی سی چپت لگاتی وہ ایک طرف کو چل دی تھی۔۔۔۔
اور وہ واقعی میں یہ سوچنے لگی تھی کہ وہ کیوں منع کر رہی تھی رشتے سے۔۔۔۔
************
ماشااللہ ۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچاۓ۔۔۔ نازش نے آگے بڑھ کر ماہم کا ماتھا چوما تھا۔۔۔ اور پھر پیسے اس کے ہاتھ پر رکھ دیے تھے۔۔۔
وہ ہلکے سبز رنگ کے جوڑے میں دھیرے سے مسکراہٹ دباتی دانیال کے دل کے تار بجا گٸ تھی۔۔۔
تو اس ادا کو میں کیا سمجھوں پرسوں تو بہت جوش میں کہہ رہی تھی۔۔۔ نہیں کرنی شادی مجھے۔۔۔ نا چاہتے ہوۓ بھی دانیال سب سے نظریں بچا کر اس پر اچٹتی سی نظر ڈال رہا تھا۔۔۔
شازیہ اب دانیال کے بابا کے ساتھ آٶں گی باقاعدہ رسم کر کے جاٶں گی۔۔۔ نازش نے شازیہ کے کندھے پر فرط محبت سے ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
ادھر دیکھ۔۔۔ پاگل لڑکی اس کے لیے منع کررہی ۔۔۔ پر جوش مگر دھیمے لہجے میں ماہم کے کان کے قریب سر گوشی کی تھی۔۔
ماہم نے اس کی نظروں کا تعاقب کیا تھا اور پھر چند لمحے تو مبہوت سی ہو گٸ تھی۔۔۔
گرے چیک والے کوٹ پینٹ میں ملبوس وہ اس پر بجلیاں گرا رہا تھا۔۔۔ایک دم سے جیسے دل پر گدگدی سی ہوٸ تھی۔۔۔ کچھ عرصے کے بعد وہ پورے کا پورا اس کا ہونے والا تھا۔۔۔ریڑھی کی ہڈی میں جیسے کرنٹ دوڑ گیا تھا۔۔۔
کیا پرسنیلٹی ہے ۔۔۔ ارسہ نے پھر سے سرگوشی کی تھی۔۔۔
بڑی مشکل سے خود کو ارسہ کے سامنے سنبھال پاٸ تھی۔۔۔
ہم۔م۔م سو تو ہے۔۔۔ پر انداز تو چیک کرو ذرا۔۔ لگتا جیسے کتنے برسوں سے مسکرایا نہ ہو۔۔۔ ہونٹ کو دانتوں میں دباۓ اب وہ شرارت سے ارسہ کو کہہ رہی تھی۔۔۔
حالت دیکھ اپنی کیسے بلش ہو رہی ہو۔۔۔ارسہ نے اس کی طرف دیکھ کر قہقہ لگاتے ہوۓ کہا تھا۔۔۔
اچھا۔۔۔ بڑی بات ہے۔۔۔ فروا نے قہقہ لگاتے ہوۓ چھیڑنے کے انداز میں کہا۔۔
کوٸ بات نہیں عجیب کوٸ بیوقوف قسم کی لڑکی ہے۔۔۔ صرف شکل ہی ہے عقل سے پیدل ہے۔۔۔ دانیال نے مسکراہٹ دباٸ۔۔۔ پیاری تو وہ تھی۔۔ اس بات پر تو دل نے بھی سر خم کیا تھا۔۔۔
اچھا ۔۔۔ ایک تم ہی سمجھدار پیدا ہوۓ ہو اس دنیا میں۔۔۔ فروا نے چڑانے کے سے انداز میں کہا۔۔۔
ہاں وہ تو میں ہوں۔۔۔ ایک نظر خود کو سامنے لگے شیشے میں دیکھا تھا۔۔۔
اچھا چلو۔۔۔ تمھاری تعریفیں سننے کے لیے نہیں فون کیا تھا میں نے ۔۔۔ فروا نے مصنوعی روٹھنے کے سے انداز میں کہا تھا۔۔۔
خدا حافظ۔۔ فروا کے خدا حافظ کا جواب دے کر وہ اب باہرکی طرف بڑھا تھا۔۔۔
افف ماہا۔۔۔ ارسہ نے پاس کھڑی ماہم کے بازو پر زور سے چٹکی کاٹی تھی۔۔۔
اچھا۔۔ تو پہنچ گٸ تم تک بھی خبر واہ۔۔۔ طنز سے بھری مسکراہٹ چہرے پر سجا کر بولا تھا۔۔۔
رات کا سارا منظر آنکھوں کے آگے گھوم گیا تھا۔۔۔ اگر وہ اس سے بےزار تھا کہ وہ اس کے مزاج کی نہیں ہے تو خوش وہ بھی نہیں تھی۔۔۔ ساری رات اس بات نے بے چین کیے رکھا تھا اسے۔۔۔
ہاں تو ابھی تصویر دیکھی اس کی۔۔۔ سچ کہوں بس یہی ہونی چاہیے بھابھی میری۔۔۔ فروا چہک رہی تھی۔۔۔
ہاں اماں کے بعد ایک تمھاری ہی کمی تھی پوری ہوٸ۔۔۔ دانیال نے ٹھنڈی سانس بھری تھی۔۔۔
محترمہ تو شاٸد آج انکار کر دے ۔۔۔ لب بھینچ کر اس کی رات والی بات کو سوچا تھا۔۔۔
تمھاری اطلاع کے لیے عرض ہے ہاں کر چکا ہوں میں۔۔۔ فروا کو اتنا کہہ کر خوش کر دیا تھا۔۔۔ اور اس کی خوشی پر لب اس کے بھی مسکرا دیے تھے۔۔۔
میری مرضی میں جب بھی جاٶں ۔۔ آپ جاٸیں۔۔۔ اس کے رعب چلانے کے انداز پر ماہم جل کر رہ گٸ تھی۔۔۔ناک پھلا کر کہا
نہیں آپ جاٸیں پہلے۔۔۔ میں کچھ دیر ٹھہر کر جاٶں گا ایسے لوگوں کی نظروں میں آٸیں گے۔۔۔ دانیال نے پھر سے با رعب انداز میں ہی کہا تھا۔۔
وہ حیران کھڑی بھنویں اچکاۓ اس کے انداز کو دیکھ رہی تھی۔۔۔
جاٸیں پلیز۔۔۔ دانیال نے پھر سے ہاتھ کا اشارہ کیا تھا۔۔۔
وہ پیر پٹختی چل دی تھی۔۔۔
*********
کیوں اماں کو بار بار منع کر رہے پاگل ایسی کوٸ پیاری لڑکی ہے۔۔۔ فروا کی آواز فون سے ابھری تھی۔۔ جس پر شرٹ کا کالر ٹھیک کرتے کرتے اس کے ہاتھ تھم سے گۓتھے۔۔۔
کیوں میں کیوں کروں آپ کریں منع ۔۔۔ دانیال نے بھنویں اچکا کر کہا۔۔
مجھے تو ویسے بھی اپنی اماں کی پسند سے شادی کرنی ہے۔۔۔ اب ان کو آپ پسند ہیں تو میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ ان کے لیے میں آپکو ساری عمر بھی برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔ بڑے لاپرواہ انداز میں کہا۔۔۔
سامنے کھڑی ماہم کے جیسے تن بدن میں آگ لگ گٸ تھی۔۔۔
کیا مطلب برداشت کر سکتا ہوں۔۔۔ دانت پیس کر اور آنکھیں سکیڑ کر کہا۔۔۔
مطلب سمجھانے کا میرے خیال سے یہ مناسب وقت اور موقع نہیں ہے۔۔۔آپ کو منع کرنا ہے شوق سے کریں۔۔۔ لیکن میری طرف سے معزرت ہاں۔۔ بڑے انداز میں بارعب لہجے میں دو ٹوک کہا۔۔۔
ماہم کا غصے سے چہرہ لال ہو گیا۔تھا۔۔۔۔کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ دانیال پھر سے بول پڑا۔۔۔
نیچے جاٸیں رات بہت ہو رہی۔۔۔ وہی بارعب انداز۔۔۔تھوڑا سا پیچھے ہو کر اسے ہاتھ کے اشارے سے نیچے جانے کا کہا۔۔۔
طرح دوسرا چاند ہی لگ رہی تھی۔۔۔خوبصورتی کے معاملے میں تو اماں نے لاجواب انتخاب کر چھوڑا تھا۔۔ بس عقل سے پیدل ہی تھی۔۔۔ دانیال نے دل میں سوچا اور لبوں کو مسکرانے سے روکا تھا۔۔۔
آپ کو کس نے کہا کہ میں شادی کے لیے راضی ہو گٸ ہوں۔۔۔ ماتھے پر بل ڈال کر سینے ہر ہاتھ باندھ کر وہ بڑے رعب سے گویا ہوٸ۔۔۔
میں آپ سے ہر گز شادی نہیں کروں گی۔۔۔ چہرے کا رخ ایک طرف کر کے ناگواری ظاہر کی۔۔۔
عجیب کوٸ بدتمیز سی بے باک لڑکی ہے۔۔ دانیال کے ماتھے پر پھر سے ناگواری کے بل آ گۓ تھے۔۔۔
یہ تو بہت اچھی بات ہوٸ کیونکہ میں تو خود آپ سے شادی کرنے پر رضامند نہیں ہوں ۔۔۔ بڑے سنجیدہ انداز میں کہا اور لبوں پر پھر سے زبان پھیری۔۔
یہ تو بس میری اماں کا دل آ گیا ہے آپ پر۔۔۔ جیبوں سے ہاتھ نکال کر ہوا میں سیدھے کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
تو آپ منع کر دیں۔۔۔ ماہم نے فورا تیزی سے کہا۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain