Damadam.pk
Ambreen@'s posts | Damadam

Ambreen@'s posts:

Ambreen@
 

آپ ایک بات بتاٸیں۔۔۔ میرا آپ سے ابھی رشتہ ہی کیا تھا کہ آپ نے دھونس جماٸ مجھ پر۔۔۔ ماہم کو اس کے انداز پر تپ چڑھ گٸ تھی تو محترم اس بات کو کسی کھاتے میں ہی نہیں لاتے ہیں۔۔۔
یہ میری زندگی ہے ۔۔ مجھے اچھا لگتا ہے ڈانس کرنا۔۔۔ ماہم نے تھوڑی گردن اکڑا کر کہا تھا۔۔۔۔
لیکن مجھے نہیں اچھا لگتا کہ جو لڑکی ایک دن بعد میرے نام سے منسوب ہونے جا رہی وہ یوں سب کے سامنے ناچے۔۔۔ دانیال نے دانت پیستے ہوۓ ماتھے پر بل ڈال کر کہا۔۔۔
اور ایک معنی خیز نظر اس پر نۓرشتے کے حوالے سے ڈالی۔۔ ڈھیلے سے اونچے سے کرتے میں ملبوس تھی۔۔۔ دوپٹہ گلے میں بے نیازی سے جھول رہا تھا۔۔۔
رات میں پورا چاند چھت کو روشن کیے ہوۓ تھا۔۔ اور وہ اپنے نام کے معنی کی طرح دوسرا چاند ہی لگ رہی تھی۔۔۔خوبصورتی کے معاملے میں تو اماں نے لاجواب انتخاب کر چھوڑا تھا۔۔ بس عقل سے پیدل ہی تھی۔۔۔

Ambreen@
 

طریقہ تو آپکا بھی مناسب نہیں تھا۔۔ دانت پیستے ہوۓ اپنے اڑتے گھنگرالے بالوں کو زبردستی کانوں کے ہیچھے اٹکاتے ہوۓ ماہم نے کہا۔۔۔
کیا مطلب ۔۔۔ کونسا۔۔ بڑی نا سمجھی کے انداز میں دانیال نے کہا اور بھنویں اچکا کر چہرہ تھوڑا سا آگے کیا۔۔
وہ جو آپ نے میرا فنگشن ہی خراب کر چھوڑا۔۔ اس کے ایک دم چہرہ قریب کرنے پر ایک عجیب سا احساس ہوا تھا۔۔۔جو بھی تھا لیکن وہ اتنا خوبرو ضرور تھا کہ سامنے کھڑا بندہ ایک لمحے کے لیے اس کا اسیر ہو جاۓ۔۔۔ ماہم نے بڑی مشکل سے آواز کو مدھم ہونےسے روکا تھا۔۔۔ وہ کیوں کمزور بنے اس کے سامنے۔۔۔
میں کیوں خراب کروں گا آپکا فنگشن۔۔۔ دانیال نے بے یقینی سے کندھے اچکا کر ہونٹوں کو تھوڑا سا باہر نکالتے ہوۓ کہا۔۔۔

Ambreen@
 

جی۔۔۔ اس کے عقب سے مردانہ وجاہت بھری آواز ابھری تھی۔۔۔
دھیرے سے ماہم نے نازک سراپہ موڑا تھا۔۔۔
وہ بلکل سامنے تھوڑے ناگواری کے انداز میں کھڑا تھا۔۔۔ ماہم نے ارسہ کے ہاتھ اسے پیغام بھجوایا تھا کہ وہ چھت پراس سے ملنا چا ہتی ہے۔۔۔ دانیال پہلے تو عجیب الجھن کا شکار ہوا اس ناگوار فرماٸش پر پھر دوسری دفعہ ارسہ نے پھر سے پیغام بھجوایا تھا۔۔ جس پر وہ بے دلی سے اوپر آیا تھا ۔ اب ارسہ سیڑھیوں میں کھڑی تھی۔جو نیچے سے کسی کی آمد کی خبر کے لیے کھڑی تھی۔۔۔
وہ۔۔۔ آپ سے بات کرنی تھی مجھے۔۔۔ بڑے لاپرواہ اور ناگواری کے انداز میں کہا۔۔۔
جی کہیں ۔۔۔ویسے یہ طریقہ بلکل مناسب نہیں ہے۔۔۔ دانیال نے اردگرد نظر ڈالی اور لبوں پر زبان پھیرکر پینٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہوۓ کہا۔۔۔

Ambreen@
 

چل اب چپ کر جا بے شرم۔۔۔ کھڑی رہے ادھر۔۔۔ شازیہ نے غصے سے کہا تھا اور ایک جھٹکا دیا تھا بازو کو۔۔۔
ماہم ہل کر رہ گٸ تھی۔۔۔
امی۔۔۔۔۔ اس نے بے چارگی سے دیکھا تھا شازیہ کو جب کہ ڈانس ختم ہونے کے بعد اب سب تالیاں پیٹ رہے تھے۔۔
ارسہ کی بڑی بہن ناہید یعنی کے اسے کے بڑے چچا کی بیٹی کی شادی تھی۔۔جس کے لیے وہ اتنی پر جوش رہی تھی۔۔۔ اور ان جناب نے ساری خوشی اور جوش پر پانی ہی پھیر دیا تھا۔۔۔ماہم نے کھا جانے والی نظروں سے گردن اکڑاۓ کھڑے دانیال کو دیکھا۔۔۔

Ambreen@
 

۔ امی میں نہ کہتی تھی عجیب کوٸ سڑو قسم کا انسان ہے۔۔۔ ماہم نے ناک سکیڑ کر کہا۔۔۔ دل کیا جا کر زور سے کندھا ہلا کر پوچھے کیا خرید لیا ہے مجھے جناب نے۔۔۔
خدا کی پناہ ابھی تو کوٸ رشتہ نہ ناطہ۔۔۔ جناب دھونس جمانا بھی شروع۔۔ غصے سے ماہم نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔ اور ایک نظر اپنی ماں کے پہلو میں بیٹھے دانیال پر ڈالی جو اسی کی طرف چور نظروں سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ اسکو دیکھتے ہی فورا نظروں کا زاویہ بدل ڈالا تھا۔۔۔
ارے بات مانتی ہے میری جوتی۔۔۔ میں تو کروں گی ڈانس۔۔۔ ماہم نے زور اے پیر پٹخا تھا جب کے نظریں ابھی بھی دور کھڑے دانیال پر ٹکی تھیں۔۔۔ اس نے آنکھیں سکیڑ کر اس کو دیکھا تھا۔۔۔

Ambreen@
 

ی۔۔۔
تم لوگ کرو بیٹا۔۔۔ اس کو کچھ کام ہے۔۔۔ شازیہ نے معزرت کے انداز میں ارسہ اور عارفہ سے کہا۔۔۔ اور اس کا بازو پکڑ کر زبردستی ایک طرف لے آٸ تھیں۔۔۔
کیا ہے امی۔۔۔ بیچ میں سے ہی کھینچ لاٸیں مجھے ۔۔کیا آفت آ گٸ اب۔۔۔ ماہم نے بازو سہلاتے ہوۓ ۔۔۔ ماتھے پر بل ڈال کر ناگواری سے پوچھا۔۔۔
تو بس رہنے دے ڈانس کرنے کو۔۔۔ شازیہ نے پھولی سانس کو بحال کرتے ہوۓ تیزی سے کہا۔۔۔
امی۔۔۔ میں ایک ہفتے سے ارسہ والوں کے ساتھ اپنی ٹانگیں توڑوا رہی ہوں ۔۔۔اور آج آپ مجھے کھینچ کر لے آٸ ہیں وہاں سے۔۔۔ پہلے بھی تو کرتی تھی میں اب کیا مسٸلہ ہو گیا۔۔۔ ماہم کا پارہ چڑھ گیا تھا۔۔۔ عجیب نا سمجھی کے انداز میں شازیہ کو دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
بیٹا وہ دانیال ۔۔ شازیہ نے نظریں چراٸ۔۔۔
اس کو پسند نہیں بیٹا یہ سب۔۔۔ انھوں محبت سے کہا۔۔۔
چلیں۔۔۔۔ جی ۔۔۔ ہو گۓ نہ شروع۔۔۔

Ambreen@
 

ارے نہیں۔۔۔ بس وہ ۔۔۔ نازش نے تھوڑے جز بز سے انداز میں لب کچلے اور ارد گرد دیکھا۔۔۔
کیا ہوا کوٸ پریشانی ہے۔۔۔ شازیہ نے پریشان سی ہو کر کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔۔۔
ماہم کو کہیں ڈانس مت کرے ۔۔۔ دیکھیں دانیال۔۔۔۔ نازش نے تھوڑا رک رک کر شرمندہ سے لہجے میں کہا تھا۔۔۔
اوہ میں سمجھ گٸ ۔۔۔ آپ بلکل پریشان نہ ہوں بس وہ بچیوں نے مل کر کیا تھا تیار ڈانس۔۔۔ میں ابھی منع کیے دیتی ہوں۔۔۔ شازیہ نے فورا نازش کی شرمندگی دور کرنے والے انداز میں کہا۔۔
اور تیزی سے دوپٹہ سنبھالتی ماہم کی طرف بڑھی تھیں۔۔۔
ماہم ۔۔۔ ماہم۔۔۔شازیہ ماہم کا بازو پکڑ کر ایک طرف لے گٸیں
وہ جو ابھی ڈانس شروع ہی کرنے والی تھی تھوڑی عجیب نظروں سے شازیہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔
تم لوگ کرو بیٹا۔۔۔ اس کو کچھ کام ہے۔۔۔ شازیہ نے معزرت کے انداز میں ارسہ اور عارفہ سے کہا۔۔۔

Ambreen@
 

بیٹا تو کیا ہے ساری بچیاں مل کر ہی کر رہی ہیں۔۔ایسے اچھا نہیں لگے گا۔۔۔ نازش نے خجل ہوتے ہوۓ ارد گرد دیکھا۔۔۔
اماں تو ایسے مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔مجھے شادی نہیں کرنی پھر۔۔دانیال نے اپنے ازلی غصے میں دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔۔
اچھا اچھا ایک منٹ۔۔۔ نازش نے ایک دم اس کے ارادے کو بھانپتے ہوۓ جلدی سے کہا وہ تو اتنی مشکل سے اسے راضی کر پاٸیں تھی۔۔۔
وہ تیزی سے چلتی ہوٸ کچھ دور کھڑی شازیہ کے پاس آٸ تھیں۔۔۔
شازیہ ۔۔۔ میری بات سننا ذرا۔۔۔ نازش نے ہاتھوں کو مسلتے ہوۓ دھیرے سے پر جوش کھڑی شازیہ کو کہا تھا۔۔
جی جی کہیں کسی چیز کی ضرورت ہے کیا۔۔۔ شازیہ جلدی سے متوجہ ہوٸ اور خوش دلی سے پوچھا۔۔

Ambreen@
 

دانیال نے ایک بھر پور نظر اب کسی اور نظریے سے ڈالی تھی وہ واقعی مکمل دلکشی کو سمیٹ کر ایک ہی سراپے میں سینچی ہوٸ دوشیزہ تھی۔۔۔ ایک دم سے دل کو عجیب سی الجھن ہوٸ تھی کل وہ باقاعدہ اس کے نام سے منسوب ہونے جا رہی تھی اور پھر چند ماہ میں ہی شادی تھی۔۔۔ اور وہ یوں اس کے نا پسندیدہ کام کو سر انجام دینے کے لیے کھڑی تھی۔۔۔
بہت سے کزنز سیٹیاں بجا رہے تھے۔۔۔ یہ سب دیکھ کر وہ ظبط سے لب بھینچتا ہوا نازش کے پاس آیا تھا۔۔۔
ارے بیٹا ایسے کیسے ابھی تو بات ہی ہوٸ ہے صرف۔۔۔ نازش نے حیرانگی سے دانیال کو دیکھا تھا۔۔۔
تو اماں ہاں ہوگٸ ہے نہ ۔۔۔ آپ کہیں جا کر شازیہ خالہ کو منع کریں اسے ۔۔۔دانیال کو عجیب الجھن ہونے لگی تھی۔۔ دل کر رہا تھا جاۓ اوراسے خود کھینچتا ہوا فلور سے اتار دے۔۔۔

Ambreen@
 

اور تھوڑے غصے کے انداز میں تنبہیہ کیا۔۔۔
تیرے ابا بہت خوش ہیں اس رشتے سے۔۔۔ شازیہ نے اسے خبردار ہی تو کیا تھا۔۔۔
وہ کچھ بولنے کے لیے پر تول ہی رہی تھی کہ وہ باہر نکل گٸ تھیں۔۔۔
اور وہ یوں ہی کپڑوں کے ڈھیر لگے پلنگ پر ہاتھ دھرے بیٹھی تھی۔۔۔
*****************
اماں۔۔۔ اسے منع کریں ۔۔۔ یہ ڈانس نہیں کرے گی۔۔ دانیال نے نازش کے کان میں سرگوشی کی تھی۔۔۔ جبکہ نظریں سامنے کھڑی ماہم پر تھیں جو تین لڑکیوں کے ساتھ ابھی ابھی ڈانس فلور پرآٸ تھی۔۔۔ تینوں اپنی کمر کے گرد دوپٹے باندھ رہی تھیں۔۔۔ مطلب ڈانس شروع کرنے ہی والی تھیں۔۔۔
ماہم شہد رنگ کے چمکتے جوڑے میں دمک رہی تھی۔۔۔ ایک تو ویسے بہت خوش شکل تھی اوپر سے پورے لوازمات کے ساتھ تیار ہوٸ تھی۔۔۔

Ambreen@
 

ذہنی طور پر سیٹ ہو جاۓ۔۔۔
امی مجھے نہیں پسند وہ کلف لگا شخص۔۔۔ بچوں کی طرح عجیب جھر جھری لیتے ہوۓ کہا۔۔
ارے یہ کلف دوسروں کے لیے ہوتی۔۔ بیوی کے تو سب ہی غلام ہوتے ۔۔۔ شازیہ نے پیار سے اس کے چہرے کو دونوں ہاتھوں میں لیا تھا۔۔۔
اور تجھ جیسی تو ویسے ہی دیوانہ بنا ڈالے گی اس کو ۔۔۔ شازیہ نے شرارت سے گال کھینچے تھے۔۔۔
امی مجھے کوٸ شوق نہیں چڑھا۔۔۔ پتا ہے کل سالن کیا گر گیا مجھ سے غلطی سے۔۔ موصوف نے تو ایسی ایسی سنا ڈالی خدا کی پناہ سمجھو بس۔۔۔ ماہم ابھی بھی منہ بسورے ہی بیٹھی تھی۔۔۔
لیکچر ہی دیتا رہے گا مجھے ہر وقت۔۔۔ ہاتھ اٹھا کر ماں کو آنے والے وقت سےڈرایا تھا۔۔۔
اچھا چل چپ اب بس۔۔۔ جلدی سے تیار ہو جا اب۔۔۔ اور تمیز سے رہیو۔۔۔ نازش کے سامنے ۔۔شازیہ نے ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکالنے والا انداز اپنایا تھا۔۔۔۔

Ambreen@
 

ہوا میں ناگواری سے ہاتھ چلایا اور دھپ سے پاس پڑے پلنگ پر منہ پھلا کر بیٹھ گٸ۔۔
مجھے دوستوں کی طرح ہنسنے کھیلنے والا شوہر چاہیے۔۔۔ آپ نے دیکھا اس کو۔۔ کیسے اکڑو سا ہے۔۔۔ روہانسی سی شکل بنا کر کہا۔۔۔
شروع سے اپنے ذہن میں ایسا ہی ہمسفر سوچا تھا جو اس کی شرارتوں میں اس کا ساتھ دے گا ۔۔۔ جیسے وہ زندگی جیتی اسی ڈھنگ سے جیے گا۔۔۔ لیکن یہاں تو معاملا ہی الٹ تھا۔۔۔موصوف کوٸ انتہاٸ ہی بڈھی روح اپنے جسم میں لیے اس دنیا میں تشریف لاۓ تھے۔۔۔ مسکراہٹ تو دیکھی تک نہ تھی ان دو دن میں اس کے چہرے پر ہاں البتہ اپنے لیے ناگواری بہت بار دیکھ چکی تھی۔۔۔۔
چپ کرجا۔۔۔ چپ کر جا بیوقوف کہیں کی۔۔۔ تیرے ابا سن لیں گے۔۔۔ شازیہ نے باسط سے ڈرتے ہوۓ کہا۔۔۔ وہ تو اس کو بتانا بھی نہیں چاہتے تھے ۔۔۔ شازیہ نے تھوڑی ضدکی تو وہ راضی ہوۓ تھے کہ چلو بتا دو اسے ذہنی طور پر سیٹ

Ambreen@
 

ماہم نے ناک چڑھا کر دانیال کی اگلی خوبی گنواٸ تھی۔۔۔
چپ کر تیرے ابا نہ سن لیں کمبخت کہیں کی۔۔۔ شازیہ نے ڈر کر اس کی قینچی کی طرح چلتی زبان کو روکنے کے لیے اسے گھورکردیکھا تھا۔۔۔
اور کیا اس لوفر ارقم سے کروا دیں تمھاری شادی۔۔۔ نہ کسی کام کا نا کاج کا۔۔۔ شازیہ نے دانت پیستے ہوۓ محلے کے لڑکے کا کہا جو بہت دفعہ ان کے ہاں ماہم کے لیے رشتہ بھیج چکا تھا۔۔۔
امی نام نے لیں اس لنگور جیسی شکل والے ارقم کا میں کون سا اس کی خاطر انکار کر رہی اللہ توبہ امی۔۔ماہم نے افسوس سے شازیہ کی طرف دیکھتے ہوۓ کہا۔۔۔
اتنا اچھا سمجھدار بچا ہے خوش شکل ۔۔ اچھا کمانے والا۔۔۔ شازیہ اب پھر سے اسے ڈانٹنے کے انداز میں دانیال کی خوبیاں گنوانا شروع ہو گٸ تھیں۔۔۔
امی۔۔۔ کیا اچار ڈالوں گی ان ساری خوبیوں کا میں۔۔۔ مجھے ایسا باس قسم کا شوہر نہیں چاہیے ۔۔۔

Ambreen@
 

وہ تیزی سے بڑے سے برآمدے سے ہوتی ہوٸ جا رہی تھی جو کھچاکھچ مہمانوں سے بھرا پڑا تھا جو بھاگ دوڑ میں رات کے فنگشن کے لیے تیار ہو رہے تھے۔ وہ کوٸ سنسان گوشہ تلاش کر رہی تھی۔۔۔ پھر سٹور پر نظر پڑتے ہی وہ شازیہ کو وہاں لے جا چکی تھی۔۔
میں اس کھڑوس سے ہر گز نہیں کروں گی شادی۔۔۔ ماہم نےغصے سے آنکھیں پھاڑتے ہوۓ کہا۔۔۔
وہ تو سانس بھی سوچ سوچ کر لیتا ہے۔۔۔ بے زار سی شکل بنا کر ہونٹوں کو عجیب سے زاویہ میں گھوماتے ہوۓ کہا۔۔۔
شازیہ اور باسط نے اسے بلا کر اس کے رشتے کی بابت سے اسے آگاہ کیا تھا۔۔۔ کیونکہ نازش کراچی جانے سے پہلے اسے دانیال کے ساتھ منسوب کر کے جانا چاہتی تھی۔۔ اسے کے تو چودہ طبق روشن ہو گۓ تھے یہ سن کر کہ وہ اکڑو سنگھ اس کی ساری زندگی کا ساتھی بنے گا۔۔۔
بات ایسے کرتا ہے جیسے ہر لفظ پر ٹیکس ادا کرتا ہو۔۔۔

Ambreen@
 

بیٹا شادی سے پہلے ایسی ہی ہوتی سب لڑکیاں۔۔۔ بدل جاۓ گی تیرے رنگ میں ڈھل جاۓ گی۔۔۔ انھوں نے محبت سے دانیال کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا۔۔۔
اچھا۔۔۔ اگر میرا جینا اجیرن کر چھوڑا اس نے تو۔۔۔ دانیال نے اچٹتی سی نظر سامنے بیٹھی اس آفت پر ڈالی جو اماں اسکی زندگی میں لانا چاہتی تھیں۔۔۔
ارے رنگ بھر دے گی تیری پھیکی زندگی میں۔۔۔ اماں نے ماتھا چوما تھا۔۔۔
چلیں پھر بھروا لیں ان محترمہ سے میری زندگی میں رنگ۔۔۔ دانیال نے ہار مانتے ہوۓ ٹھنڈی آہ بھری تھی۔۔۔
آپ خوش رہیں بس۔۔ اس نے ماں کے چہرے پر برسوں بعد سکون دیکھ کر کہا۔۔۔
****************
امی۔۔۔ بات سنیں میری۔۔۔ ماہم نے شازیہ کا بازو زور سے پکڑ کرایک طرف لے جاتے ہوۓ کہا۔۔۔

Ambreen@
 

نبیل کی موت کے بعد اس کی لڑکی ذات میں دلچسپی بلکل ختم ہو گٸ تھی۔۔۔ اسے لڑکیوں سے محبت کرنا ان کے پیچھے وقت برباد کرنا اور ان کے پیچھے جان تک دے دینا انتہاٸ کوٸ بیوقوفانہ عمل لگتا تھا۔
کیا ماٸیں اپنے بیٹوں کو اپنے سینوں سےلگا کر اس لیے سینچتی ہیں کہ وہ جوانی میں کسی انجان لڑکی کی محبت میں گرفتار ہو کر اس ماں کی ممتا کو ہی چھلنی کر جاٸیں جس کی اس ایک رات کا قرض وہ ساری زندگی نہیں اتار سکتے جو اس نے ان کے لیے جاگ کر گزاری ہو۔۔ نبیل کی اس
1
ناگہانی موت کے وقت وہ سولہ سال کا تھا اور نبیل باٸیس سال کا ۔۔وہ دن اور آج کا دن اسے لڑکی سے خاص طور پر ایسی شوخ چنچل لڑکیوں سے عجیب سی چڑ تھی۔۔۔ بہت عرصے تک تو شادی کرنے سے ہی منا کرتا رہا اب وہ اٹھاٸیس کا ہو چلا تھا اماں کوفکر کھاۓ جاتی تھی۔۔۔ کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے کی خوشی دیکھ بھی پاٸیں گی کہ نہیں۔۔۔

Ambreen@
 

تھے۔۔۔ بچپن میں خاندان کی ایک دو شادیوں میں شرکت کے بعد اس نے دور دراز کی شادی کے تقریبات میں جانا بلکل چھوڑ دیا تھا۔۔۔آج کوٸ دس بارہ سال بعد وہ آیا تھا۔۔۔ اپنی اماں کے رشتہ داروں کی کسی شادی پر۔۔۔ سنجیدہ طبیعت کا مالک کچھ تو وہ پہلے سے تھا اور کچھ نبیل کی موت کے بعد زیادہ ہی چپ سا رہنے لگا تھا۔
نبیل سب سے بڑا تھا اس سے چھوٹی فروا تھی اور تیسرے نمبر پر یہ تھا۔۔۔نبیل کی عجیب موت ان کی زندگی کے سارے رنگ لے اڑی تھی۔۔ وہ کچی عمر میں کسی لڑکی کی محبت میں ایسا گرفتار ہوا کہ اس کے نہ ملنے کے غم میں اپنی ہی جان لے بیٹھا تھا۔۔۔ اس کی موت نے دانیال کے ذہن پر ایسا گہرا اثر چھوڑا تھا کہ اسے محبت جیسی خرافات سے نفرت سی ہو گٸ تھی۔۔۔

Ambreen@
 

نہیں تو تیرے ابا کروا دیں گے اس نازلین سے شادی ۔۔۔ وہ لے جاۓ گی میرے بیٹے کو اپنے ساتھ باہر میں کیا کروں گی اکیلے یہاں۔۔۔انھوں نے روہانسی آواز میں کہا۔۔۔
ان کو ڈر تھا کہ فراست اپنی بہن کی بیٹی سے ان کے بیٹے کی شادی کروا دیں گے اور وہ ہمیشہ باہر پلی بڑھی لڑکی ان کے بیٹے کو بھی ہمیشہ کے لیے باہر لے جاۓ گی۔
اماں اچھا چپ نہ۔۔۔ اچھا ۔۔ دانیال نے کوفت زدہ شکل بنا کر ارد گرد نظر دوڑاٸ۔۔۔
وہ شادی والے گھر کے صحن میں بیٹھے ہوے تھے۔۔۔ مہندی کا فنگشن کچھ دیر میں ہی شروع ہونے والا تھا۔۔۔ وہ کل صبح یہاں لاہور آۓ تھے۔۔۔ بچپن میں خاندان کی ایک دو شادیوں میں شرکت کے بعد اس نے دور دراز کی شادی کے تقریبات میں جانا بلکل چھوڑ دیا تھا۔۔۔آج کوٸ دس بارہ سال بعد وہ آیا تھا۔۔۔ اپنی اماں کے رشتہ داروں کی کسی شادی پر۔۔۔ سنجیدہ طبیعت کا مالک کچھ تو وہ پہلے سے تھا

Ambreen@
 

نہ نہ کرتے تیس کے ہو چلے ہو۔۔۔ اب بھی اپنی ہی من مانی کرتے رہو گے۔۔۔ انھوں نے دوپٹے سے آنسو پونچھے۔۔۔
اماں اب خیر تیس کا تو نہیں ہوا ابھی میں۔۔۔ دانیال نے خجل سا ہو کر کہا۔۔۔
جو بھی ہو تم نے کہا تھا شادی میری مرضی سے کرو گے۔۔۔ اب میں جو چاہوں پسند کروں۔۔۔ خفا سی شکل بنا کر نازش نے کہا۔۔۔
اماں یہ عجیب دھونس ہوٸ یار۔۔۔ پلیز اس کے علاوہ اور کوٸ بھی۔۔دانیال نے سامنے کرسی پر بیٹھی مزے سے بچے سے چھین کر لیا گیا پیکٹ کھاتی لڑکی کی طرف دیکھا۔۔ ہلکے سے گھنگرالے بال جو کندھوں سے نیچے آ رہے تھے۔۔۔ کندھوں پر ڈالے ساتھ بیٹھی لڑکی کے ساتھ گپے لگانے میں مصروف تھی۔۔۔
ارے مجھے تو اس جیسی اور کوٸ نہیں نظر آٸ اور تو دیکھ لے میں اس دفعہ یہاں سے بات پکی کر کے ہی جانے والی ہوں ۔۔ نازش نے ماتھے ہر بل ڈال کر کہا۔۔۔

Ambreen@
 

بس کریں اماں یہ ندیدہ پن ہے اس کا۔۔۔ اور اتنی زور سے ہنستی ہے کہ ارد گرد چار پانچ لوگ تو ویسے ہی دہل جاتے۔۔۔ دانیال نے اپنے ازلی سنجیدہ لہجے میں کہا۔۔۔
آپکو پتہ ہے اچھی طرح مجھے ایسی لڑکیاں بلکل نہیں پسند ۔۔۔ اس نے لبوں پر زبانی پھیری چور نظروں سے ارد گرد دیکھا کہ کوٸ ان کی باتیں نہ سن رہا ہو۔۔۔اور تھوڑے دھیمے لہجے میں کہا۔۔۔
میں ہر گز ہر گز اس عجیب سی مخلوق سے شادی نہیں کروں گا۔۔۔ آپ بلکل بات آگے نہیں چلاٸیں گی۔۔۔ انگلی دو ٹوک انداز میں نازش کی آنکھوں کے آگے کرتے ہوۓ کہا۔۔۔
تم نے پہلے کب میری کوٸ بات مانی۔۔۔ نازش کی آنکھوں میں فورا سے پانی تیر نے لگا تھا۔۔۔ ایک بیٹا ویسے ہی جہان فانی سے کوچ کر چکا تھا۔۔۔اب یہ ایک تھا وہ اس کو ہر گز کھونا نہیں چاہتی تھیں۔۔۔ اس کی ہر خوشی اپنی زندگی میں ہی دیکھنا چاہتی تھیں۔۔۔