ارے اماں بس کریں۔۔۔دانیال نے بے زار سے لہجے میں کہا۔۔۔ دیکھیں تو ذرا عجیب ہی مخلوق لگ رہی ۔۔ اب وہ پانچ سال کے بچے سے چپس کا پیکٹ چھین رہی ہے۔۔۔ دانیال نے ناگوار سی شکل بنا کر اماں کو اس کی عجیب حرکت کے بارے میں باور کروایا۔۔۔
وہ پہلے تو بچے کی منتیں کرتی رہی کہ وہ پیکٹ اسے دیے دے۔۔۔ لیکن جب وہ نہیں مانا تو اب اس سے چھین رہی تھی بچا بھی روتا ہوا پورا زور لگا رہا تھا۔۔۔
ارے تو کیا ہوا شوخ سی ہے ۔۔۔ ہنستی کھیلتی۔۔۔ قہقوں سے گھر گونج جاۓ گا۔۔۔ نازش نے اس کی کسی بات کو بھی سنجیدہ نہ لیتے ہوۓ اس لڑکی کی بلاٸیں اتاری۔۔۔
وہ گھر کی ازلی خاموشی سے تنگ آ چکی تھیں۔۔۔ جب سے فروا کی شادی ہوٸ تھی تب سے گھر کا سناٹا کاٹ کھانے کو دوڑتا تھا۔۔۔ دانیال پر پڑھنے کا بھوت سوار تھا اب جا کر انجنیرنگ مکمل ہوٸ تھی۔۔۔
جو بڑے لاڈ سے اسے سامنے کسی پانچ سال کے بچے سے چپس کا پیکٹ چھینتی لڑکی کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ بتا رہی تھیں یہ ہے وہ لڑکی جو میں نے تمھارے لیے پسند کر چھوڑی ہے۔۔۔
دانیال کے بھنویں اپنی جگہ سے اوپر چلے گۓ تھے ۔۔ اور ماتھے پر چند ناگواری کے بل نمودار ہو گۓ تھے۔۔۔ اس چھلاوا نما لڑکی کی حرکتوں نے دو دن میں اس کی زندگی عزاب کر چھوڑی تھی اور اماں اسے پوری زندگی کے لیے مسلط کرنے پر تلی ہوٸ تھیں۔۔۔
کیوں کیا براٸ اس میں۔۔۔ دیکھ تو کیسی پیاری شکل اور ایسے چھوٹی سی چنچل سی گھر میں رونق ہو جاۓ گی۔۔۔ نازش نے دوپٹے کا کونا منہ میں دبا کر سرگوشی کی اور دور کھڑی ماہم کے سراپے کو محبت پاش نظروں سے دیکھا۔۔۔
ماہم نے کندھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ یاد دلایا۔۔۔
ارے ہاں۔۔۔ آیا یاد۔۔۔ یار تب تو عجیب مسکین سا تھا۔۔۔ اب توبڑا ہینڈسم ہو گیا ہے۔۔۔
ارے خاک ہینڈسم ویسے کے ویسے ہیں سڑیل سے۔۔۔ مجھے تو ایسے لڑکے زہر لگتے۔۔۔ناک پر چوبیس سو گھنٹے غصہ ہی جماۓ رکھتے ہوں۔۔۔
ماہم نے بھی گھور کر اسی جگہ پر دیکھا جہاں سے ابھی ابھی وہ گزر کر گیا تھا۔۔۔
******************
اماں کوٸ اور لڑکی نہیں ملی تھی آپکو کیا ۔۔۔ دانیال نے حیرانی سے کھلے منہ سے اس لڑکی کو دیکھا اور پھر دانت پیستے ہوۓ پاس بیٹھی نازش کو کہا۔۔
دانیال کو اسی لاپرواہی سے تو چڑ تھی۔۔۔ وہ نہ تو خود لا پرواہ تھا اور نہ کسی کی یوں لا پرواہی برداشت ہوتی تھی۔۔۔
کوٸ ضرورت نہیں۔۔۔ گھور کر اسے دیکھا۔۔۔
اب ہٹیں گی یہاں سی کہ۔۔۔ رستے کے روکے ہوۓ اس کے وجود پر ایک ناگوار سی نظر ڈال کر کہا۔۔۔
اوہ۔۔۔ جاٸیں۔۔۔ جاٸیں۔۔۔ماہم نے طنزیہ سے انداز میں ایسے کہا جیسے کہہ رہی ہو جان چھوڑیں بھٸ۔۔۔
یہ کون ہیں محترم ۔۔۔ پاس کھڑی ارسہ نے پوچھا۔۔۔
میری امی کی چچا زاد بہن ہیں ۔۔۔ ان کے بیٹے ہیں جناب۔۔۔ ماہم نے بڑے انداز سے گردن پر آۓ بالوں کو جھٹکا دیا۔۔۔۔
پہلے تو کسی شادی میں نہیں دیکھا ان کو۔۔۔ارسہ نے تھوڈی پر انگلی ٹکاتے ہوۓ اسی راستے کی طرف دیکھا جہاں سے ابھی وہ پھنکارتا ہوا نکلا تھا۔۔۔
ارے کہاں یاد نہیں۔۔۔ بچن میں بھی ایک طرف بیٹھے رہتے تھے یہ۔۔۔ سب ان کو چھیڑتے تھے۔۔۔
میرا خیال ہے آپ اندھی نہیں ہیں ۔۔ یہ میری شرٹ پر آپکو نشان نظر آ رہے ہوں گے۔۔ اور یہ ابھی اسی وقت میں بدل کر باہر نکلا ہوں۔۔۔دانیال نے شرٹ کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ کہا۔۔۔جب کہ آواز اب غصے سے بھاری ہو رہی تھی۔۔۔
ایک تو اتنے کم کپڑے رکھ کر لایا تھا شادی کے لیے۔۔۔ اماں کے بہت کہنے کے باوجود اسے کوفت ہو رہی تھی بیگ بھر بھر کر لے جانے میں۔۔۔ اب ان محترمہ نے اس شرٹ کا بھی ستیا ناس کر چھوڑا تھا۔۔۔ پاگل کہیں کی۔۔۔
اتار کہ دیں مجھے۔۔۔ بڑے انداز سے ہوا میں ہاتھ چلاتے ہوۓ کہا۔۔۔
کیا۔۔۔ دانیال نے نا سمجھنے کے انداز میں بھنویں اچکا کر کہا۔۔۔
جی اتار کے دیں نہ۔۔۔ ابھی دھلاوا دیتی ہوں۔۔۔ لاپرواہی کے انداز میں کہا۔۔۔
شادی کا ۔۔۔ ماہم نے ناک سکیڑ کر کہا اور ہونٹوں کو بھینچ کر داٸیں باٸیں ایسے جنبش دی جیسے اس کا کوٸ قصور نہ ہو۔۔۔
آپ اگر آرام سے چل لیں گی اس طرح اچھل اچھل کر صبح سے جیسے پھر رہی ہیں نہیں پھریں گی تو میرا خیال ہے بہت سارے لوگ بچ جاٸیں گے نقصان سے۔۔۔ دانیال نے غرانے کے انداز میں کہا۔۔۔
وہ کل سے یہاں تھے۔۔۔ اور اس لڑکی کو اس نے ایک منٹ کے لیے بھی کہیں سکون سے بیٹھے نہیں دیکھا تھا۔۔۔ بچی اتنی بھی نہیں تھی جتنی اس کی حرکتیں بچگانا تھیں۔۔۔ اونچی اونچی آواز میں قہقے لگاتی بچوں کے پیچھے ان کے کھانے کی چیزیں چھیننے کے لیے بھاگے پھرتی۔۔۔ کبھی کسی سے ٹکراتی تو کبھی کسی سے۔۔۔
اتنا بھی کیا نقصان ہوا آپ کا ہاں۔۔۔ اپنے ساتھ کھڑی دوسری لڑکی کو باٶل تھما کر اب وہ کمر پر دونوں ہاتھ رکھے ماتھے پر بل ڈالے الٹا اسی پر چڑھ دوڑی تھی ۔۔۔
اول تو وہ ہمیشہ کی طرح اس شادی پر بلکل نہیں آنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن اس دفعہ اماں کی بے جہ ضد تھی جس کے آگے گھٹنے ٹیکتے ہی بنی تھی اس کی۔۔۔ ان پر اس کی شادی کا عجب بھوت سوار ہو گیا تھا۔۔۔ انھوں نے کوٸ لڑکی پسند کر لی تھی اپنے عجیب سے خاندان میں سے جس کے لیے اس دفعہ اسے بھی اپنے ساتھ ہی گھسیٹ لاٸ تھیں۔۔۔ کہ شادی پر ایک نظر ڈال لینا۔۔۔ وہ لڑکی تو ابھی تک دیکھ نہیں پایا تھا ہاں البتہ اس چھٹانک بھر کی لڑکی نے تنگ کر چھوڑا۔۔۔
مجھے نہیں پتا چلا بھٸ۔۔ آپ تو ایسے غصہ کر رہے ۔۔۔ اتنا رش ہے شادی کا ۔۔۔ ماہم نے ناک سکیڑ کر کہا اور ہونٹوں کو بھینچ کر داٸیں باٸیں ایسے جنبش دی جیسے اس کا کوٸ قصور نہ ہو۔۔۔
عجب بندھن
قسط نمبر 1
یہ کیا کیا آپ نے ۔۔۔ دانت پیس کر خونخوار نظر اپنے سامنے کھڑی اس دھان پان سے وجود کی لڑکی کو دیکھا جس کے ہاتھ میں سالن کا باٶل تھا جس میں سے اب کچھ سالن چھلک کر اس کی سفید شرٹ کو داغ دار کر چکا تھا۔۔۔
اوہ۔۔۔ سوری۔۔۔ اس نے جلدی سے انگلی دانتوں میں دباٸ تھی۔۔۔ آنکھیں حیرانی سے تھوڑی سی پھیل گٸ تھیں۔۔۔ لیکن شرارت ہنوز قاٸم تھی۔۔۔
سوری۔۔۔دانیال نے دانت پیستے ہوۓ کہا۔۔ غصہ تو اس کی لا پرواہی پر زیادہ تھا۔۔۔
میری ساری شرٹ خراب کر دی۔۔۔ اب وہ ایک نظر اپنی شرٹ پر ڈال رہا تھا جو اب عجیب ہی شکل اختیار کر چکی تھی۔۔۔۔اور پھر ایک کھا جانے والی نظر سامنے کھڑی اس لڑکی پر ڈالی جس نے دو دن میں ہی اس کے ناک میں دم کر دیا تھا۔۔۔۔
تیرے بعد کسی کو سوچے
دل کی اس بغاوت پہ لعنت🖐️🔥🥀
انسان بھی تو ڈستا ہے!
زہر ڈال کر لفظوں میں.🥀🖤
ذیہن پر ہر گز ہر گز نہ سوار کر مجھے😒
میں تیرا حافظہ نچوڑ سکتی ہوں
کسی کی ہیبت سے صنم سہے ہوئے رہتے تھے ❤
منہ کے بل گر کر اللہ ھو احد کہتے تھے
میں ہر شخص کی حقیقتوں سے آگاہ ہوں
میں نے مقامِ خاص دے کر آزمایا ہے لوگوں کو❤️
معافی کبھی بھی تکلیف کا خسارہ ادا نہیں کر سکتی🔥
وابستگیاں خوار کرتی ہیں 🍃
جس کے لئے آپ خاص نہیں، اسے عام کردیں ۔۔!💯
تم غلام ہو اس شخص کے جس سے تمہیں محبت ہے🔥🥀
بے حساب حسرتیں نہ پالیے ۔۔🥀
چلو ھم مان لیتے ھیں۔
محبت اور سیاست میں
سبھی اطوار جائز ھیں
انا کی جنگ میں جاناں
غلط بھی ٹھیک ھوتا ھے
مگر یہ جنگ کیسی ھے
تم ھی میرے مقابل ھو
چلو ھم جیت کی خواھش
تم ھی پہ وار دیتے ھیں
دھنک کے پل پہ چل کے
گگن کے پار جاتے ھیں
چلو ھم ھار جاتے ھیں
مجھے ڈھونڈنے کی چاہ میں
کیوں کھوجتے ہو جابجا
میرے غم خوار میرے ہمنوا
میں یہاں وہاں گیا نہیں
کسی اور جگہ رکا نہیں
اگر دھڑکنوں میں تیری نہیں
تو یہ یاد رکھ
میں کہیں نہیں..
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain