کبھی دلبر کبھی دشمن کبھی دلدار ہو جانا کہاں سے تم نے سیکھا ہے بڑا بیزار ہو جانا کبھی مل کر رقیبوں سے ہمارے حال پہ ہنسنا کبھی میری مُحَبت میں گُل و گُلزار ہو جانا
جب کوئی حکمراں بھٹکتا ہے عدل پھانسی پہ جا لٹکتا ہے اے زمیں زاد یوں اکڑ کہ نہ چل آسماں ایک دم جھٹکتا ہے کچھ نہ کچھ اب کے ہونے والا ہے دل میں کانٹا سا اک کھٹکتا ہے حال بستی کا کیا بتاؤں میں جیسے سینے میں دم اٹکتا ہے سعداللہ شاہ)
جب انسان اپنی ضد ... غرور ... اور انا کے خول میـــــــــں بند ہو جاتا ہے ... تو پھر سچائی کی روشنی بھی اُســـــــــں کے دل تکـ نہیـــــــــں پہنچتی ... علم تبــــــــ ہی اثر کرتا ہے ... جبــــــــ دل جھکنے کو تیار ہو ... اور سیکھنے والا ... خود کو خالی محسوســـــــــں کرے ... لیکن جبــــــــ کوئی صرفــــــــ اپنی برتری ثابتـ کرنے پر تُل جائے ... تو وہ سچ کو نہیـــــــــں بلکہ اپنی انا کو جیتاتا ہے ... اور یوں علم ... عقل ... اور فہم سب ہارــ جاتے ہیــــــــں