تنہا رہ لیں مگر
اپنا معیار مت گرائیں۔
Aنoشy۔
ہم خوابوں کے ساتھ بہت آگے نکل گئے۔
اور یہ بھول گئے کہ تقدیر لکھی جا چکی تھی۔
Aنoشy۔
سکوں ملتا تھا جس کی آواز سے مجھے۔
اس کے لفظوں نے مجھے اندر سے مار دیا۔
Aنoشy۔
انتظار ان کا کیا جاتا ہے
جن کے آنے کی کوئی امید ہو۔
Aنoشy ۔
آپ مغرور کیوں سمجھتے ہو مجھے
مجھے کم بولنے کی عادت ہے۔
Aنoشy۔
jis k jhut ka hum maan rakh lety hi
wo smjhty hi unhon ne humen bewaqoof bna lea .
Anoshy.
استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ استغفرُاللہ۔
جالتو جلاالتو آئی بلا کو ٹال تو۔ ۔
😊😊
all Replace skip sorry mujhy ksi se koi bat nhe krni .
Aنoشy۔


ہے تمنا کہ سال نو تجھے ہر خوشی سے ہم کنار کرے
کھل اُٹھیں پھول تو اگر خواہش بہار کرے۔
مسکراہٹ لبوں پہ ہو رقصاں سارا عالم تجھی سے پیار کرے۔۔
آگے دل نہیں چاہتا کچھ بھی لکھنے کو۔
بغیر لباس آئے تھے اس جہاں میں۔
اقبال
ایک کفن کی خاطر اتنا سفر کرنا پڑا۔
Aنoشy۔


یا وہ آئینے سے باہر نکل آیا بہر حال برداشت سے باہر تھا جو ہوا سو ہوا۔ اس دن سے آئینہ ٹوٹ گیا۔ آئینے کی ضرورت بھی نہیں تھی۔ وہ اور میں ساتھ ساتھ تھے۔ اس دن سے مجھے ہر شے بدلی بدلی نظر آنے لگی۔ مشرق سے نکل کر مغرب میں ڈوبنے والا سورج یوں معلوم ہوا کہ یہ نہ کہیں سے نکلتا ہے۔ نہ ڈوبتا ہے۔ ہر مقام بیک وقت مشرق بھی ہے اور مغرب بھی ہے اور ان مشارق و مغارب سے ماورا ایک کائنات ہے۔ جہاں نہ دن ہے نہ رات۔ نہ ہونا ہے نہ نہ ہونا ۔ اس دن سے مجھے یوں محسوس ہوا کہ میں ایک طویل ماضی کی انتہا ہوں اور ایک طویل مستقبل کی ابتداء بھی میں ہی ہوں۔ میرے کندھوں پر ماضی اور مستقبل کا بوجھ ہے۔ مجھے محسوس ہوا کہ میں ہر انسان کا حصہ ہوں اور ہر انسان میرا حصہ ۔ میں ہر وجود میں موجود ہوں اور ہر وجود مجھ میں موجود ہے۔ دنیا میں ہونے والے ہر ۔
Aنoشy۔
میں اور میں۔
میں نے آئینے میں دیکھا میرا عکس تھا۔ ہو بہو مجھ جیسا۔میں اس میں محو ہو گئی اس کے حرکات و سکنات میرے جیسی تھی۔۔ میں آگے بڑھتی گئی ۔ وہ آگے بڑھتا گیا۔ میں پیچھے ہٹی وہ پیچھے ہٹ گیا۔ میں چھپ گئی۔ وہ چھپ گیا۔ یہ عجیب کھیل تھا۔ میں سوچتی کہ اصل۔ میں ۔ کون ہے۔ آئینے کے اندر یا باہر۔ ایک اصل ہے۔ دوسرا عکس ہے اور اصل عکس کا عکس ہے ۔ یہ سوچ بڑی اذیت ناک تھی۔ میں اس سے ہمکلام ہوئی۔ وہ ہمیشہ خاموش رہا اور میں ہمیشہ بولتی رہی۔ ۔ ایک دن میں نے اس سے پوچھا۔ تم بولتے کیوں نہیں؟. وہ مسکرایا اور چپ رہا۔ کمرے میں سناٹا تھا۔ میں نے پھر سوال کیا۔ تم بولتے کیوں نہیں۔ اس نے کہا میں بولوں گا تو تم برداشت نہ کر سکو گی۔ بس اتنا سن کر ہیبت طاری ہو گئی۔ کپکپی طاری ہو گئی اور پھر معلوم نہیں کیا ہوا ۔ نہ معلوم میں آئینے میں سما گئی یا وہ آئینے
Aنoشy۔۔
ٹھیک ہی کہا کسی نے دسمبر کے بچھڑے پھر کبھی نہیں ملتے۔
اے دسمبر اب کے جاتے ہوئے مجھے بھی ساتھ لے جانا۔ ۔
Aنoشy۔
یہاں سے انسان اپنی بے بسی کی پہچان شروع کرتا ہے۔ بے بسی کے آغاز سے صبر کا آغاز ہوتا ہے۔ خوشی میں غم کا دخل۔ صحت میں بیماری کا آجانا۔۔ بنے ہوئے پروگرام کا معطل ہونا ۔ کسی اور انسان کے کسی عمل سے ہماری پر سکون زندگی میں پریشانی کا امکان پیدا ہونا۔ سب صبر کے مقامات ہیں۔ تکلیف ہمارے اعمال سے آئے یا اس کے حکم سے مقام صبر ہے۔ کیونکہ تکلیف ایک اذیت ناک کیفیت کا نام ہے۔ تکلیف جسم کی ہو ۔ بیماری کی شکل میں یا روح کی تکلیف۔ احساس مصیبت یا احساس تنہائی یا احساس محرومی کی شکل میں۔ مقام صبر ہے۔ انسان جس حالت سے نکلنا چاہے اور نکل نہ سکے ۔ وہاں صبر کرتا ہے۔ جہاں انسان کا علم ساتھ نہ دے ۔اس کی عقل ساتھ نہ دے اور اس کا عمل اس کی مدد نہ کر سکے وہاں مجبوری کا احساس اسے صبر کے دامن کا آسرا تلاش
Aنoشy۔
اس پر عجیب و غریب فرائض عائد ہوگئے ہیں۔ وہ محبت کے نام پر مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔ لیکن اب صرف صبر ہے۔ یہی تلقین ہے کہ ہو جانے والے واقعات پر افسوس نہ کرو ۔ صبر کرو۔ صبر کا مقام اس وقت آتا ہے جب انسان کو یہ یقین آجائے کہ اس کی زندگی میں اس کے عمل اور اس کے ارادے کے ساتھ کسی اور کا عمل۔ کسی اور کا عمل کسی اور کا ارادہ بھی شامل ہے۔ اپنے حال میں دوسرے کا حال شامل دیکھ کر انسان گھبراتا ہے اور جب اسے ایک اور حقیقت کا عمل ہوتا ہے کہ اس کے ارادوں اور اس کے عمل میں اس کے خالق و مالک کا امر شامل ہے اور کبھی کبھی یہ امر ایک مشکل مقام سے گزرنے کا امر ہے۔ تو انسان سوچتا ہے کہ اگر بات اپنی ذات تک ہو تو بدل بھی سکتی ہے۔ لیکن اگر فیصلے امر مطلق کے تابع ہیں۔ تو ٹل نہیں سکتے ۔ یہاں سے انسان اپنی بے بسی کی
Aنoشy۔
اس زندگی میں۔ بس ایسی صورت میں انسان بے بس ہوتا ہے۔ صبر کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ انسان شادی کرتا ہے۔ شادی کا معنی خوشی ہے۔ لیکن کچھ ہی عرصہ بعد انسان محسوس کرتا ہے کہ شادی کا عمل فرائض او ذمہ داریوں کی داستان ہے۔ حقوق کا قصہ ہے۔ صرف خوشی کی بات نہیں۔ اس میں رنج اور رنجشیں بھی ہیں۔ دو انسان۔ زوجین مل کر سفر کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کے لئے باعث مسرت ہونے کے وعدے اور دعوے لے کر ہم سفر بنتے ہیں اور کچھ ہی عرصہ بعد ایک دوسرے کو برداشت کرنے کے عمل سے گزرتے ہیں۔ خوش رہنے کا تصوّر ختم ہو جاتا ہے۔ صبر کرنا پڑتا ہے۔ اب یہ فیصلہ تبدیل نہیں ہو سکتا۔ اولاد ہونے کے بعد انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ وہ ایک خوبصورت رسی سے جکڑا گیا ہے۔ اس کی آزادی اور آزاد خیالی ختم ہو گئی ہے۔ اس پر عجیب و غریب فرائض
Aنoشy۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain