لکھنے کو ہم بہت کچھ لکھ سکتے ہیں۔
لیکن بات تو عمل کی ہے
باتیں صرف لکھنے کی حد تک ہی نہیں ہوتی ان پر عمل کرنا بھی ضروری ہوتا ہے ۔
Aنoشy۔
ہم بدلے نہیں صاحب۔
بس دنیا کو سمجھ گئے ہیں۔
Aنoشy۔
رابطے حد سے بڑھ جائیں تو غم ملتے ہیں۔
اسی واسطے ہم لوگوں سے کم ملتے ہیں۔ ۔
Aنoشy۔
محبت ہاتھ میں پہنی ہوئی چوڑی کی مانند ہے۔
سنورتی ہے کھنکتی ہے کھنک کے ٹوٹ جاتی ہے۔
Aنoشy۔
بہت برے ہیں جناب
ہم سے بات نہیں کنارا کیجئے
Aنoشy۔
کچھ حادثوں سے گر گئے محسن زمین پر۔
ہم رشک آسماں تھے ابھی کل کی بات ہے۔
Aنoشy۔
میرے پاس خاموشی کے سوا کوئی حل نہیں۔
میں بات کرتی ہوں تو بات بگڑ جاتی ہے۔
Aنoشy۔
کبھی کبھار یہ آنسو بھی انہیں لوگوں کے لیے گرتے ہیں۔
جنہیں ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
Aنoشy۔
صفائیاں دینا تو دور کی بات ۔
ہم نے تو اپنے حق میں بولنا بھی چھوڑ دیا۔
Aنoشy۔
ہزاروں خواہشیں ہوں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے۔
بہت نکلے میرے ارماں ہائےئےپھر بھی کم نکلے۔
Aنoشy۔
ایک دن سب کچھہ جیت کر بھی ہار جانا ہے
اس جہاں میں صرف ایک کفن کی خاطر اتنا سفر ہورہا ہے۔
Aنoشy۔
کوئی ہے دلاسہ دینے کو
آج دل درد سے پھٹا جارہا ہے۔
Aنoشy.۔
میں کچھ بھی نہیں ہوں میری اوقات ہی کیا ہے۔
جو کچھ بھی پاس میرے آقا کی عطاء ہے۔
Aنoشy۔
سب اپنے لگتے ہیں۔
لیکن
صرف باتوں سے۔
Aنoشy۔
ہم لوگ تو سمندر کے بچھڑے ہوئے ساحل ہیں
اس پار بھی تنہائی اس پار بھی تنہائی۔
Aنoشy۔
میرا حال اس قیدی جیسا ہے جسے عین فرار کے وقت یاد آیا کہ میرا تو کوئی منتظر ہی نہیں ہے۔
Aنoشy۔
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو۔
Aنoشy۔