دکھا کر مجھ کو چشم مست مستانہ بنا ڈالا پلا کر آج ساقی تو نے دیوانہ بنا ڈالا قیام یاد خوباں کو ترقی دے خدا اس نے مرے اجڑے ہوئے دل کو پری خانہ بنا ڈالا دل صد چاک میرا تھا بھلا کس کام کے قابل مگر اک شوخ نے لے کر اسے شانا بنا ڈالا ضرر پہنچا نہ مے خانے کو کچھ سنگ حوادث سے اگر ٹوٹی کوئی بوتل تو پیمانہ بنا ڈالا غضب جادو بھری ہوتی ہیں آنکھیں حسن والوں کی نظر جس سے ملائی اس کو دیوانہ بنا ڈالا تمنا وصل کی دل سے جو نکلی یہ خیال آیا کہ اک آباد گھر کو ہائے ویرانہ بنا ڈالا وہ میکش ہوں کہ ہر دم شیشہ و ساغر ہے ساتھ اپنے جہاں بیٹھا وہیں پر ایک مے خانہ بنا ڈالا خیال بادہ نوشی فرقت ساقی میں جب آیا بنایا دل کو خم آنکھوں کو پیمانہ بنا ڈالا خدا کے فضل سے آفاق تھا فرزانہ و عاقل نوازش کی بتوں نے اس کو دیوانہ بنا ڈالا
گلوں پہ شبنم نہیں لہو ہے یہ کیسی سوغات رنگ و بو ہے بہار خنجر بہ دست آئی ہر اک منظر لہو لہو ہے کوئی تمنا نہیں ہے مجھ کو سکون دل کی ہی آرزو ہے میں اک مدت سے لاپتہ ہوں مجھے خود اپنی ہی جستجو ہے یہ بے دلی کی نماز تیری گمان ہوتا ہے بے وضو ہے اس کو اکثر میں سوچتا ہوں مری غزل کی جو آبرو ہے مرا نہیں ہے اسدؔ یہ چہرہ تو کون شیشے میں روبرو ہے
دکھا کر مجھ کو چشم مست مستانہ بنا ڈالا پلا کر آج ساقی تو نے دیوانہ بنا ڈالا قیام یاد خوباں کو ترقی دے خدا اس نے مرے اجڑے ہوئے دل کو پری خانہ بنا ڈالا دل صد چاک میرا تھا بھلا کس کام کے قابل مگر اک شوخ نے لے کر اسے شانا بنا ڈالا ضرر پہنچا نہ مے خانے کو کچھ سنگ حوادث سے اگر ٹوٹی کوئی بوتل تو پیمانہ بنا ڈالا غضب جادو بھری ہوتی ہیں آنکھیں حسن والوں کی نظر جس سے ملائی اس کو دیوانہ بنا ڈالا تمنا وصل کی دل سے جو نکلی یہ خیال آیا کہ اک آباد گھر کو ہائے ویرانہ بنا ڈالا وہ میکش ہوں کہ ہر دم شیشہ و ساغر ہے ساتھ اپنے جہاں بیٹھا وہیں پر ایک مے خانہ بنا ڈالا خیال بادہ نوشی فرقت ساقی میں جب آیا بنایا دل کو خم آنکھوں کو پیمانہ بنا ڈالا خدا کے فضل سے آفاق تھا فرزانہ و عاقل نوازش کی بتوں نے اس کو دیوانہ بنا ڈالا