سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میری ساری امت جنت میں جائے گی، ما سوائے ان لوگوں کے جو خود جنت میں جانے سے انکاری ہوں۔ صحابۂ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! جنت میں جانے سے کون انکارکرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس امت کو دو ضمانتیں حاصل تھیں، اب ان میں سے ایک ضمانت تو اٹھا لی گئی ہے اور دوسری ابھی تک باقی ہے، امان کی ان دو قسموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنْتَ فِیہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ} … اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا، اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں گے۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت کو باقی امتوں پر تین چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے: اس کے لیے پوری زمین کو ذریعۂ طہارت یعنی وضو کے قائم مقام تیمم کا ذریعہ اور عبادت گاہ بنایا گیا ہے اور اس کی صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات مجھے عرش کے نیچے والے خزانوں میں سے عطا کی گئی ہیں، ایسا خزانہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ اس حدیث کا ایک راوی ابومعاویہ کہتا ہے کہ یہ ساری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب زمین میں برائی ظاہر ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب زمین والوں پر نازل کر دے گا۔ سیدہ نے کہا: اور ان میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں، لیکن پھر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال ابتدائی نرم کھیتی کی مانند ہے، جب اس تک ہوا پہنچتی ہے تو وہ جھک جاتی ہے اور جب ہوا تھم جاتی ہے تو وہ سیدھی ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح مؤمن کی مثال ہے، جو آزمائشوں کی وجہ سے ہچکولے کھاتا رہتا ہے، اور منافق کی مثال صنوبر کے اس درخت کی طرح ہے، جو ٹھوس اور سخت ہونے کی وجہ سے ایک حالت پر برقرار رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے۔
۔ (دوسری سند)وہ کہتے ہیں: میں نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو؟ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں اس کے علاوہ کوئی سوال کرنے کے لیے نہیں آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی وہ ہے، جس پر تجھے انشراح صدر ہو جائے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے سینے میں کھٹکنے لگ جائے، اگرچہ لوگ تجھے فتوی دیتے رہیں۔
(دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب نماز کی اقامت کہہ دی جائے تو فرض نماز کے علاوہ اور کوئی نماز نہیں ہوتی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے یہ بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے ایسا عمل بتائیں کہ اگر میں اس پر عمل کروں تو جنت میں داخل ہوجاؤں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سلام عام کر، کھانا کھلا، صلہ رحمی کر اور رات کو جب لوگ سوئے ہوئے ہوں تو تو اٹھ کر نماز پڑھ، پھر سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میری بعثت اور قیامت ان دو انگلیوں کی طرح متصل ہیں۔ ساتھ ہی آپ نے انگشت ِ شہادت اور درمیانی انگلی کو پھیلا کر اشارہ کیا۔
سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے اسی قسم کی حدیث مروی ہے، البتہ اس میں یہ الفاظ ذرا مختلف ہیں: پس وہ سواری اس کے پاس کھڑی تھی اور اپنی لگام کھینچ رہی تھی، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندے کی توبہ کی وجہ سے جو خوشی ہوتی ہے، یہ آدمی اس سے زیادہ خوش نہیں تھا۔
سیدنا عبد الرحمن بن شبل انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قرآن مجید پڑھا کرو، نہ اس کو کھانے کا ذریعہ بناؤ، نہ اس کے ذریعے مالِ کثیر جمع کرو، نہ اس کے معاملے میں سنگدل ہو جاؤ اور نہ اس میں غلوّ اور تشدد کرو
ولید سے پوچھا: یہ تین آدمی کون ہیں؟ انھوں نے کہا: منافق بھی دراصل قرآن مجید کا منکر ہوتا ہے،فاجر اس کے ذریعے کھاتا ہے اور مومن اس پر ایمان لاتاہے۔
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ساٹھ سال بعد ایسے نااہل لوگ پیدا ہوں گے جو نمازوں کو ضائع کر دیں گے اور شہوات کی اتباع کریں گے، ارشادِ باری تعالی ہے: {اَضَاعُوا الصَّلَاۃَ وَاتَّبَعُوا الشَّہَوَاتِ فسَوْفَ یُلْقَوْنَ غَیًّا} … پھر ان کے بعد ایسے نالائق جانشین ان کی جگہ آئے جنھوں نے نماز کو ضائع کر دیا اور خواہشات کے پیچھے لگ گئے تو وہ عنقریب گمراہی کو ملیں گے۔ پھر ان کے بعد نااہل ہوں گے، جو قرآن مجید تو پڑھیں گے، لیکن وہ ان کی ہنسلی کی ہڈی سے نیچے نہیں اترے گا، قرآن مجیدکی تلاوت تین قسم کے لوگ کرتے ہیں: مومن، منافق اور فاجر۔ بشیر راوی نے کہا: میں نے ولید سے پوچھا: یہ تین آدمی کون ہیں؟ انھوں نے کہا: منافق بھی دراصل قرآن مجید کا منکر ہوتا ہے،فاجر اس کے ذریعے کھاتا ہے اور
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے اس طرح بھی مروی ہے کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں کتنے دنوں میں قرآن ختم کیا کرو؟ فرمایا: ہر ماہ میں ختم کرو۔ میں نے کہا: مجھے زیادہ قوت ہے۔آپ نے فرمایا: پچیس دنوں میں پڑھ لو۔ میں نے کہا: مجھ میں زیادہ قوت ہے۔آپ نے فرمایا: بیس دن میں پڑھ لو۔ میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ نے فرمایا: پندہ دنوں میں قرآن ختم کرلیا کرو۔ میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ نے فرمایا: سات دنوں میں پڑھ لیا کرو۔ میں نے کہا: مجھ میں اس سے زیادہ قوت ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو تین دن سے کم میں پڑھے گا اس نے اسے سمجھا نہیں۔
Neeyk kaam bi Tehqeeq par karoo Aysa naa ho Aap Rasullah SAW ki baath ki mokhalifat tho nahi karty. Quran jis ny 3 din main khatam kiya . Rasullah SAW ny farmaya os ny Quran ka Haq Adaa nahi ki.

log chaahy jitnay bi Amaal achchy kary. lyken ......Allah on logo ky Amaal tholy ga. jis ka Nimaaz teek ho.



submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain