سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے چاشت کی نماز اس وقت پڑھی کہ جب سورج مشرق کی جانب اتنا بلند تھا جتنا وہ عصر کے وقت مغرب کی جانب اونچا ہوتا ہے۔
سیّدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: آدم کے بیٹے! دن کے شروع میں چار رکعتوں کو پڑھنے سے عاجز نہ آجا، (اگر تو یہ نماز پڑھے گا تو) میں تجھے دن کے آخر میں کافی ہوجاؤں گا۔
سیّدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے چاشت کی دو رکعتوں کی حفاظت کی اس کے تمام گناہ بخش دیئے جائیں گے، اگرچہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابرہوں ۔
ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عین دوپہر کے وقت نکلے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اوپر ایک کپڑا اوڑھا ہوا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھیں سرخ ہو چکی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلند آواز سے فرماتے جا رہے تھے: لوگو! اندھیری رات کے ٹکڑوں کی طرح تم پر فتنے چھا رہے ہیں، لوگو! جو کچھ میں جانتا ہوں، اگر تم بھی اسے جان لیتے تو تم بہت زیادہ روتے اور کم ہنستے، لوگو! عذاب ِ قبر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، بے شک قبر کا عذاب حق ہے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: ایک یہودی عورت میرے پاس آئی اور خوشبو مانگی، سو جب میں نے اسے خوشبو دے دی تو اس نے کہا: اللہ آپ کو عذاب قبر سے محفوظ رکھے۔اس دعا سے میرے دل میں تردّد ہونے لگا، یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لے آئے، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ بات بتلائی اور پوچھا: اے اللہ کے رسول! کیا قبر میں عذاب ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں،مردوں کو قبر میں ایسا عذاب ہوتا ہے کہ چوپائے اس کی آواز کو سنتے ہیں۔
سیّدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب انسان کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے اور لوگ (اس کی تدفین کے بعد) واپس جاتے ہیں تو وہ ان کے جوتوں کی آہٹ سنتا ہے، پھر اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں اور اسے بٹھا کر اس سے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارے میں پوچھتے ہیں: تو اس آدمی کے بارے میں کیا کہے گا؟ مومن میت کہتا ہے: میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اس سے کہا جاتا ہے: تو جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ نے تمہارے لیے اس کے عوض جنت میں ٹھکانا تیار کر دیا ہے، وہ اپنے دونوں ٹھکانوں کی طرف دیکھتا ہے اور قیامت کے دن تک اس کی قبرستر ہاتھ تک فراخ کر دی جاتی ہے اور اس کو تروتازہ نعمتوں سے بھر دیا جاتا ہے۔ رہا مسئلہ کافر یا منافق کا تو اس سے بھی یہی سوال کیا جاتا ہے
Ensaan os waqt marta hain jab Allah os par sab Hujjat Qayim kary. Hujjat matlab har Tarf say Allah os ko samjaayi. logo k Zariyi. mobile ky zariyi. Damadam k zariyi. Aor Allah ky samjany ky mokhtalif Tareeqy hain..
سیدنا ابورزین رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! اللہ تعالیٰ مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تم کبھی ایسی بے آباد وادی سے گزرے ہو کہ وہاں سے جب دوبارہ گزرے ہو تو وہ سر سبز ہوچکی ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اسی طرح مردوں کو زندہ کرے گا۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن جب لوگوں کو قبروں سے اٹھایا جائے گا تو آسمان ان پر ہلکی ہلکی بارش برسا رہا ہوگا۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: دو آدمی کپڑے کی خرید و فروخت کر رہے ہوں گے، ان کے سامنے کپڑا پڑا ہوگا، لیکن نہ وہ اسے لپیٹ سکیں گے اور نہ بیع پوری ہو گی کہ قیامت برپا ہو جائے گی، ایک آدمی اونٹنی کا دودھ دوہ چکا ہوگا، مگر ابھی تک اسے پی نہیں سکے گا کہ قیامت قائم ہو جائے گی، اسی طرح ایک آدمی اپنے منہ کی طرف لقمہ اٹھائے گا، لیکن ابھی تک کھائے گا نہیں کہ قیامت برپا ہو جائے گی اور ایک آدمی اپنے حوض کو پلستر کر رہاہو گا، مگر اس سے پانی پینے کی نوبت نہیں آئے گی کہ قیامت قائم ہو جائے گی۔
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن میری ساری امت جنت میں جائے گی، ما سوائے ان لوگوں کے جو خود جنت میں جانے سے انکاری ہوں۔ صحابۂ کرام نے کہا: اے اللہ کے رسول! جنت میں جانے سے کون انکارکرتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس نے میری اطاعت کی، وہ جنت میں جائے گا اور جس نے میری نافرمانی کی، اس نے جنت میں جانے سے انکار کیا۔
سیدنا ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں اس امت کو دو ضمانتیں حاصل تھیں، اب ان میں سے ایک ضمانت تو اٹھا لی گئی ہے اور دوسری ابھی تک باقی ہے، امان کی ان دو قسموں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:{وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُمْ وَأَنْتَ فِیہِمْ وَمَا کَانَ اللّٰہُ مُعَذِّبَہُمْ وَہُمْ یَسْتَغْفِرُونَ} … اور اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کرے گا کہ آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے اور اللہ تعالیٰ ان کو عذاب نہیں دے گا، اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں گے۔
سیدنا حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس امت کو باقی امتوں پر تین چیزوں میں فضیلت دی گئی ہے: اس کے لیے پوری زمین کو ذریعۂ طہارت یعنی وضو کے قائم مقام تیمم کا ذریعہ اور عبادت گاہ بنایا گیا ہے اور اس کی صفیں فرشتوں کی صفوں کی مانند بنائی گئی ہیں، سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے مزید بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سورۂ بقرہ کی آخری آیات مجھے عرش کے نیچے والے خزانوں میں سے عطا کی گئی ہیں، ایسا خزانہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دیا گیا۔ اس حدیث کا ایک راوی ابومعاویہ کہتا ہے کہ یہ ساری باتیں نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے منقول ہیں۔
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جب زمین میں برائی ظاہر ہو جائے گی تو اللہ تعالیٰ اپنا عذاب زمین والوں پر نازل کر دے گا۔ سیدہ نے کہا: اور ان میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرنے والے لوگ بھی ہوں گے؟ آپ نے فرمایا: جی ہاں، لیکن پھر وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی طرف منتقل ہو جائیں گے۔
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: مومن کی مثال ابتدائی نرم کھیتی کی مانند ہے، جب اس تک ہوا پہنچتی ہے تو وہ جھک جاتی ہے اور جب ہوا تھم جاتی ہے تو وہ سیدھی ہو جاتی ہے، بالکل اسی طرح مؤمن کی مثال ہے، جو آزمائشوں کی وجہ سے ہچکولے کھاتا رہتا ہے، اور منافق کی مثال صنوبر کے اس درخت کی طرح ہے، جو ٹھوس اور سخت ہونے کی وجہ سے ایک حالت پر برقرار رہتا ہے، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس کو توڑ دیتا ہے۔
۔ (دوسری سند)وہ کہتے ہیں: میں نیکی اور گناہ کے بارے میں سوال کرنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم نیکی اور گناہ کے بارے میں پوچھنے آئے ہو؟ میں نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے، میں اس کے علاوہ کوئی سوال کرنے کے لیے نہیں آیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نیکی وہ ہے، جس پر تجھے انشراح صدر ہو جائے اور گناہ وہ ہے، جو تیرے سینے میں کھٹکنے لگ جائے، اگرچہ لوگ تجھے فتوی دیتے رہیں۔
submitted by
uploaded by
profile:
Sorry! Ap apne item ya profile ko report nahi kar saktey, na hi apne ap ko block kar saktey hain