رخ سے پردہ اٹھا دے ذرا ساقیا، رنگ محفل کا اک دم بدل جائے گا
ہے جو بےہوش وہ ہوش میں آئے گا ، گرنے والا ہے جو وہ سنبھل جائے گا
جواب جن کا نہیں وہ سوال ہوتے ہیں
جو دیکھنے میں نہیں کچھ ، کمال ہوتے ہیں
وہ گنگناتے ہوئے یونہی جو اٹھاتے ہیں
قدم کہاں وہ قیامت کی چال ہوتے ہیں
تراشتا ہوں تمہیں اپنے جن لفظوں سے
بہت حسین میرے وہ خیال ہوتے ہیں
میں کھو گیا ہوں کہیں وقت کے تحیر میں
مرے خدا مرے دن رات ماہ و سال بنا
میں کس یقین سے لکھا گیا ہوں مٹی پر
وہ کون ہے جو مرے سلسلے کی ڈھال بنا
گو ہاتھ کو جنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے
رہنے دو ابھی ساغر و مینا مرے آگے
خوش ہوتے ہیں پر وصل میں یوں مر نہیں جاتے
آئی شب ہجراں کی تمنا مرے آگے
عاشق ہوں پہ معشوق فریبی ہے مرا کام
مجنوں کو برا کہتی ہے لیلیٰ مرے آگے
بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشا مرے آگے
تری امید پہ ٹھکرا رہا ہوں دنیا کو
تجھے بھی اپنے پہ یہ اعتبار ہے کہ نہیں
جھکی جھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی دل میں پیار ہے کہ نہیں