جب بھی ٹکرائی میرے جسم سے یہ شوخ ہوا
مجھ کو محسوس ہوا یہ کہ چھوا ہے تم نے
ایک مدت سے اسی دن کی تھی حسرت دل میں
آج میں خوش ہوں کہ دیوانہ کہا ہے تم نے
ہمسفر غم جو محبت میں دیا ہے تم نے
یہ بھی مجھ پر بڑا احسان کیا ہے تم نے
زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
موت کیا ہے انہیں اجزا کا پریشاں ہونا
روشندان سے دھوپ کا ٹکڑا آ کر میرے پاس گرا
اور پھر سورج نے کوشش کی مجھ سے آنکھ ملانے کی