قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو خوب گذرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو جاں بَلَب دیکھ کے مجھ کو مرے عیسیٰ نے کہا لا دوا درد ہے یہ، کیا کروں، مر جانے دو لال ڈورے تری آنکھوں میں جو دیکھے تو کھُلا مئے گُل رنگ سے لبریز ہیں پیمانے دو ٹھہرو! تیوری کو چڑھائے ہوئے جاتے ہو کدھر دل کا صدقہ تو ابھی سر سے اتر جانے دو منع کیوں کرتے ہو عشقِ بُتِ شیریں لب سے کیا مزے کا ہے یہ غم دوستو غم کھانے دو ہم بھی منزل پہ پہنچ جائیں گے مرتے کھپتے قافلہ یاروں کا جاتا ہے اگر جانے دو شمع و پروانہ نہ محفل میں ہوں باہم زنہار شمع رُو نے مجھے بھیجے ہیں یہ پروانے دو ایک عالم نظر آئے گا گرفتار تمھیں اپنے گیسوئے رسا تا بہ کمر جانے دو سخت جانی سے میں عاری ہوں نہایت ارے تُرک پڑ گئے ہیں تری شمشیر میں دندانے دو